• news

غداری کیس : حکومتی اور مشرف کے وکلا میں تلخ کلامی‘ ایک دوسرے کو دھمکیاں‘ انور منصور کا عدالتی بائیکاٹ

غداری کیس : حکومتی اور مشرف کے وکلا میں تلخ کلامی‘ ایک دوسرے کو دھمکیاں‘ انور منصور کا عدالتی بائیکاٹ

اسلام آباد (صلاح الدین خان سے) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کے دوران فریقین کے وکلاءکی تلخ کلامی، دھمکیوں واک آﺅٹ اور عدالتی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر بنچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو عدالت میں کیمرے نصب کرکے ریکارڈنگ کرنے کا حکم دے دیا، جسٹس فیصل عرب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی روسٹرم ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے کے لئے نہیں۔ عدالت توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے، سینئر وکلاء کے سلوک سے عدالت کو دکھ ہوا عدالت ہر چیز کا ریکارڈ رکھے گی۔ انہوں نے انتظامات پر مامور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے کیمرہ ریکارڈنگ کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا بلڈنگ اور داخلی و خارجی دروازوں پر کیمرے نصب ہیں مگر کمرہ عدالت میں نہیں جسٹس فیصل عرب نے ہدایت کی کہ فریقین وکلاءکے سلوک اور کشیدہ ماحول کے باعث کمرہ عدالت میں بھی کیمرے نصب کرکے ریکارڈنگ کی جائے تاکہ عدالت کے پاس شواہد موجود ہوں اور فیصلہ کرنے میں آسانی ہو، پرویز مشرف کے وکیل رانا اعجاز نے اکرم شیخ کے بارے میں کہا کہ وہ خود کو ہیرو اور وزیراعظم کے رائٹ ہینڈ سمجھتے ہیں، مشرف کے وکلاءکو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ہراساں کیا جا رہا ہے، انور منصور کی گاڑی پر حملہ ہوا، حکومتی پراسیکیوٹرز نے ارادہ کر رکھا ہے کہ پرویز مشرف کے آنے پر ان پر جوتا پھینکیں گے، ان کی تضحیک کی جائے گی مگر ہم اتنے کمزور نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ روسٹرم دھمکیاں دینے کے لئے نہیں آپ اسے چھوڑ دیں، شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ میں بین الاقوامی کورٹس میں پیش ہوتا رہا ہوں ہمنوا اور مخالف تمام کونسلز کو فیس کیا ہے، پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری جب عدالت آئے تو مشرف کے وکلاء نے ان کا ہلکی تالیاں بجا کر استقبال کرتے ہوئے کہا کہ شیر آیا، شیر آیا، احمد رضا قصوری نے آتے ہی اکرم شیخ کو ذہنی مریض کہا، پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ مشرف کے وکلاء ماحول کو پرامن نہیں رہنے دے رہے ابراہیم ستی نے مجھے ”مونسٹر“ کہا ہے کیا میں کوئی ”ZOO“ ہوں جو مجھے دیکھ کر ایسا کہا جا رہا ہے؟ مجھے دھمکیاں دی جا رہی ہیں میں سپریم کورٹ کی فل کورٹس میں بھی دلائل دیتا رہا ہوں مگر ایسا ماحول نہیں ہوتا مشرف کے وکلاءعدالت اور ججز پر تعصب ہونے کے الزامات لگا رہے ہیں اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایسے الزامات تو سپریم کورٹ کے ججز پر بھی لگائے گئے اگر ہم پر لگائے جا رہے ہیں تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں، فریقین وکلاءایک دوسرے کو برداشت کرنے، دلائل میں مداخلت نہ کرنے، ڈسپلن قائم رکھنے کے لئے تحریری بیان دیں وگرنہ عدالت توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ غداری کے مقدمے کے دوران پرویز مشرف اور حکومتی وکلاءکے درمیان تلخ کلامی ہوئی، ایک دوسرے کو دھمکیاں دی گئیں، پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے عدالتی کارروائی کا علامتی بائیکاٹ کیا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو دھمکیاں دی گئیں۔ پرویز مشرف کے وکیل رانا اعجاز نے خصوصی عدالت کے روبرو کہا کہ حکومتی وکیل ''اکرم شیخ نے سابق صدر پرویز مشرف کو جوتا مارنے کی دھمکی دی ہے''۔ اکرم شیخ وزیراعظم سے وعدہ کرکے آئے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کی تضحیک کریں گے۔ وہ خود کو ہیرو اور نواز شریف کو چیتا سمجھتے ہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل انور منصور کا کہنا تھا کہ مجھے یہ کیس لینے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، ساری رات میرے گھر کی گھنٹی بجائی جاتی رہی، میں ساری رات سو نہیں سکا، مجھے دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں، میری گاڑی پر حملہ بھی ہو چکا ہے۔ میری جاسوسی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ 40 سال میں ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں تاہم انور منصور کا کہنا تھا کہ حکومت سے سکیورٹی نہیں چاہتا، بے شک مجھے مار دیں، ایسی حکومت کی سکیورٹی نہیں چاہیے جو خود فریق ہے۔ شریف الدین پیرزادہ نے عدالت کے روبرو کہا کہ حکومتی وکیل اکرم شیخ نے انہیں ابراہیم ستی کے سامنے دھمکیاں دی ہیں۔ جس پر ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ اکرم شیخ نے کہا کہ شریف الدین پیرزادہ نے ساری زندگی مارشل لا کی حمایت کی۔ میرا ٹارگٹ احمد رضا قصوری نہیں بلکہ شریف الدین پیرزادہ ہیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ شریف الدین پیرزادہ کے اشارے پر مجھ پر ذاتی حملے کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو چلتا مشکل سے ہوں کسی کو دھمکیاں کیا دونگا میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مشرف کے وکلاءغداری کیس میں ججز کا تعصب ثابت نہ کر سکے، عدالت میں اٹھائے گئے تمام اعتراضات غلط نکلے۔ پرویزمشرف کیخلاف غداری مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت کے تینوں ججوں پر تعصب اور اعتراضات کی درخواستوں پر وکلائے صفائی کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ درخواستوں میں تینوں ججوں سے متعلق درست معلومات نہیں تھی۔ جسٹس فیصل عرب کے بارے میں درخواست میں کہا گیا تھاکہ فاضل جج کو3 نومبر کے پی سی اوکے باعث الگ ہونا پڑا تھا اور غیر جانبدار نہیں ہو سکتے۔ گزشتہ روز جسٹس فیصل عرب نے انور منصور کوکہا کہ آپ کو معلوم نہیں، مجھے پی سی اوکے بعد3 مرتبہ آفر دی گئی کہ حلف اٹھا کر واپس عدالت آ جائیں اور جب 2008 میں واپس آئے تو اس واپسی کے نوٹیفکیشن پر آپ کے موکل کے دستخط تھے۔ جسٹس یاور علی سے متعلق انور منصور خان نے کہا وہ جسٹس رمدے کے عزیز ہیں، جسٹس یاور علی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سفارشات میں تحفظات کا اظہارکیا لیکن اس کے باوجود ان کو جج لگایا گیا۔ جسٹس یاور علی نے کہا کہ آپ درست نہیں کہہ رہے، جوڈیشل کمشن نے متفقہ طور پر نام کی منظوری دی تھی، چیف جسٹس نے میرے نام پرکوئی منفی نوٹ نہیں لکھا تھا۔ جسٹس طاہرہ صفدر سول جج سے ترقی کرتے ہوئے ہائیکورٹ کی جج بنی ہیں، ان سے متعلق لکھا گیا تھا کہ انکے والد اور خاتون جج خود بطور وکیل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک میں بہت سرگرم تھے۔ جسٹس طاہرہ صفدر نے کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے؟ آپ کو علم ہے کہ میں1982 سے سروس میں ہوں، اس پر انور منصور خان نے کہا کہ اس پیرا کو الگ کر دیا جائے۔
وکلاء/ تلخ کلامی

ای پیپر-دی نیشن