• news

2013ئ: خسرہ، ڈینگی سے 168 ہلاکتیں، محکمہ صحت، سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی مایوس کن رہی

لاہور (ندیم بسرا) وزیراعلیٰ پنجاب کی کوششوں کے باوجود گزشتہ برس 2013ء میں محکمہ صحت پنجاب اور سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ ینگ ڈاکٹرز ہڑتالیں کرتے رہے، ڈینگی اور خسرہ سے 168قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ پی آئی سی ادویات ری ایکشن کیس میں ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا۔ محکمہ صحت کی بیوروکریسی اور ہسپتالوں کے ایم ایس کی عدم توجہ سے لاہور کے ہسپتالوں میں 5 پراجیکٹ مکمل نہ ہو سکے۔ سیکرٹری صحت پنجاب کی سیٹ خالی رہی۔ ہسپتالوں کے ایم ایس معطل، ڈی جی ہیلتھ معطل کر کے نیا ڈی جی ہیلتھ پنجاب لگا دیا گیا۔ 2013ء کا سال عوامی طبی سہولتوں کے لحاظ سے انتہائی مایوس کن رہا۔ 2013ء کے سال کا اختتام اور 2014ء کا آغاز بھی ہڑتال سے ہوا۔ 2013ء کے سال نو کے آغاز میں ینگ ڈاکٹرز نے بھوک ہڑتال اور احتجاجی لائحہ عمل اپنایا۔ ایک ماہ چلنے والی ہڑتال کا ڈراپ سین 16 فروری کو وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے بعد ہوا۔ حکومتی اداروں کی عدم توجہ سے حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام فعال نہ ہوا۔ صوبے بھر میں خسرہ پھیلنے سے 150 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ڈینگی پروگرام پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے 18 جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اس کے ساتھ کمالیہ میں ایک پولیو کیس سامنے آیا۔ 18 فروری کو ایف سی کالج کے باہر پروفیسر علی حیدر اور اس کا بیٹے کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ سال گزرنے کے باوجود ان کے قاتلوں کا سراغ نہ لگ سکا۔ سالہا سال سے ہسپتالوں میں عوامی مفاد کے منصوبے مکمل نہ ہوئے۔ میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور، فاطمہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز، جناح ہسپتال کا برن یونٹ، لاہور جنرل ہسپتال کی نیورو سائنسز عمارت اور چلڈرن ہسپتال کی عمارت مکمل نہ ہو سکی۔ محکمہ صحت پنجاب میں 22 پروفیسرز، 60 ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور 110 اسسٹنٹ پروفیسرز کی آسامیاں خالی رہیں۔ 400 کے قریب ڈاکٹرز بیرون ملک منتقل ہو گئے۔ جناح ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اعجاز شیخ کو غلط رپورٹ کے باعث او ایس ڈی بنایا گیا۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں اہلیت کی بنیاد پر پروفیسر فخر امام کو تعینات کیا گیا۔ ریگولر وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر فیصل مسعود اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز وائس چانسلر میجر جنرل (ر) محمد اسلم کو تعینات کیا گیا۔ 300 بیڈز کا شاہدرہ ہسپتال بنا کر ایم ایس ڈاکٹر عاصم کو لگایا گیا مگر ڈاکٹرز اور تکنیکی عملے کی کمی رہی۔ خسرہ کی اموات کے ذمہ دار ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر تنویر کو قرار دیکر بعدازاں میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز کو ڈی جی ہیلتھ لگایا گیا اور ایم ایس میو ڈاکٹر عبدالمجید اور ایم ایس گنگارام ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ کو لگایا گیا۔ پی ایم ڈی سی کے انتخابات کا تنازعہ ڈاکٹرز کے درمیان چلتا رہا۔ میو ہسپتال میں ایک بچے کی موت کے کیس 302 میں پھنسائے گئے 8 ڈاکٹرز کو باعزت بری کر دیا گیا۔ پاکستان میں ڈاکٹرز کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن  (PMA) کی کوئی واضح کردار سامنے نہ آ سکا۔ پہلی بار نئے بھرتی ہونے والے ڈاکٹرز کے حلف نامے میں شادی نہ کرنے کی شق ڈالی گئی۔ سیکرٹری صحت حسن اقبال اور عارف ندیم کو تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سیکرٹری صحت کی آسامی خالی رہی۔ سپیشل سیکرٹری صحت بابر حیات تارڑ فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی سرزنش کے بعد صوبائی وزیر صحت خلیل طاہر سندھو نے استعفیٰ دیدیا اور خواجہ سلمان رفیق کو دوبارہ محکمہ صحت پنجاب کا صوبائی وزیر بنا دیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن