ہماری منزل! اسلامی‘ جمہوری فلاحی مملکت کا قیام
کل پاکستان کے معروف پارلیمانی ادارے میں ایک سینئر امریکی صحافی پاملیلا کانسٹیبل کی پاکستان کے بارے میں لکھی گئی کتاب ’’ PLAYING WITH FIRE‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے نیا فلسفہ پیش کیا کہ ’’پاکستان اسلامی نہیں مسلم جمہوریہ ہے۔ اس تقریب میں سینیٹر مشاہد حسین سید‘ امریکی سفیر اور کئی ممبران اسمبلی سمیت دفاعی تجزیہ نگار بھی موجود تھے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے افعال و کردار پر نظر ثانی کریں۔ کیونکہ پاکستان کے قیام کا اصل محرک ایک نظریہ اور ایک سوچ ہے جس کی روشنی میں بحیثیت قوم مسلمانوں نے اس خطے کے حصول کی جدوجہد کی اور اپنے متعین مقصد میں کامیاب ہوئے۔
11اکتوبر1947ء کو پاکستان کے سول‘ بری‘بحری اور فضائی ملازمین سے خطاب کیا۔ اس تقریر میں اُنہوں نے بڑے واضح انداز میں قیامِ پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’پاکستان کا قیام‘ جس کے لیے ہم پچھلے دس سال سے جدوجہد کررہے تھے‘ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے لیکن ہمارا منشا اپنے لیے ایک آزاد مملکت کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ اصل منشا ایک ایسی مملکت کا حصول تھا جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کرسکیں‘ جہاں ہمیں معاشرتی عدل کے اسلامی اصولوں کے نفاذ کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔‘‘ قائداعظمؒ کی سوچ کس قدر مثبت اور جمہوری تھی ۔فروری 1948ء میں آپ نے ایک امریکی نامہ نگار کو اپنے انٹرویو میںاسی نکتے پر زور دے کر کہا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترتیب دیا جائے گا۔ اُنہوں نے فرمایا:
’’پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ ان (اسلامی ) اصولوں کا اطلاق آج کی عملی زندگی پر بھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا۔ اسلام اور اس کے نظریات سے ہم نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات‘ انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے معمار اور بانی کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔‘‘
اس سے بڑھ کر جمہوریت کیا ہوگی کہ جب پاکستان قائم ہوا تو 11اگست1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی کے اجلاس کی صدارت قائداعظمؒ نے نہیں بلکہ ایک ہندو ممبر اسمبلی‘ مسٹر جوگندرناتھ منڈل نے کی تھی۔
قائداعظمؒ نے پاکستان میں تھیوکریسی کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ اُن کے نزدیک سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام فلاحی مملکت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے اُنہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل ہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کردی تھی کہ وہ غریب عوام کے خون پسینے پر اپنے محلات قائم کرنے سے باز آجائیں۔ اس کا اظہار اُنہوںنے مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں بھی کیا۔ ایک موقع پر آپ نے سوالیہ انداز میں فرمایا کیا: ’’یہی تہذیب اور ترقی ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ کروڑوں کا استحصال کیا گیا ہے۔ اب ان کے لیے دن میں ایک وقت کا بھی کھانا حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘ ایسی تکلیف دہ کیفیت بیان کرنے کے بعد ااپ نے سوال کیا کہ ’’اگر پاکستان کا حصول اس میں تبدیلی نہیں لاسکتا تو میں اسے نہ حاصل کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘
قائداعظمؒ اپنی ضعیف العمری کے باوجود پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ اپنی تقاریر اور فکری اصولوں سے ایک قدم آگے آپ نے عملی طور پر ایسے اقدامات کرکے دکھائے کہ جب پاکستان کے قیام کے فوراً بعد مملکت کسمپرسی کی حالت میں تھی اور تمام شعبہ جات اپنے ابتدائی ایام میں ہی مشکلات کا شکار تھے اُس وقت جب آپ بطور گورنر جنرل مملکت کے سربراہ بنے تو آپ نے گورنر جنرل ہائو س کے اخراجات کو اپنے ذمہ لیا اور کسی بھی غیر ضروری پروٹوکول اور عیاشی نما فضول خرچی کو ممنوع قرار دے دیا۔ پاکستان کی ابتدائی تاریخ ایسی بہت سی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان کی زندگی کا کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ قائداعظمؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ جلد ہی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ جوں جوں عرصہ گزرتا گیا اپنی کوتاہیوں اور کچھ رہبروں کی گمراہ کن رہبری کے باعث ہم نے پاکستان کے جغرافیائی حدود اربہ کے ساتھ ساتھ حقیقی تصور مملکت کو بھی دھندلکوں میں گم کردیا۔ آج بھی ہم قائداعظمؒ کے سنہری افکار کو مشعلِ راہ بنا کر اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری پاکستان کو اقوامِ عالم میں نمایاں مقام دلوا سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عالمِ اسلام کی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔