قاضی کا ماضی تمام لوگ راضی
قاضی حسین احمد جماعت اسلامی میں بھی غیر متنازعہ تھے۔ وہ بہت مدت تک امیر جماعت اسلامی تھے۔ منور حسن بھی بہت دلیر اور استقامت والے مسلمان ہیں۔ وہ بھی بہت دوستانہ ہیں‘ مگر وہ کچھ معاملات میں جذباتی ہو جاتے ہیں۔ پاک فوج کے شہیدوں کے لئے ان کے بیان کو غلط رنگ دیا گیا ہے اور مخالفین نے اپنے مطلب کے معانی سیدھے سیدھے لفظوں کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے کو برادرم لیاقت بلوچ نے اور دوسرے دوستوں نے سنبھالنے کی کوشش کی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ قاضی صاحب بہت مستحکم مزاج کے انسان تھے۔ اصولوں پر کبھی کوئی کمپرومائز ان کی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ مگر وہ بہت کشادہ دل اور عالیٰ ظرف انسان تھے درگزر کرنے اور نظر انداز کرنے کی ایسی ادائے دلبرانہ ان کے مزاج اور شخصیت میں تھی کہ ان کے مخالف بھی انہیں دوست رکھتے تھے۔ ہمارے دوست حسن نثار کے لئے ایک تاثر ہے کہ وہ اپنے خیالات میں بہت سختی اور استقامت سے اپنے موقف کو پیش کرنے کا انداز رکھتے ہیں۔ وہ قاضی حسین احمد کے لئے بہت ملائمت اور محبت سے بات کرتے ہیں۔ وہ ان کے پاس جاتے تھے اور قاضی صاحب ان کے پاس آتے تھے۔
بہت دوستوں نے اور جماعت اسلامی کے اپنے لوگوں نے قاضی صاحب کے امیر جماعت نہ رہنے کو قبول نہ کیا تھا۔ جماعت کے لئے کسی علاقے کا امیر اگر غریب بھی ہے تو وہ جماعت کے امیر ہونے کے معانی جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایسے جمہوری حکمران ہیں جنہوںنے امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ امیر المومنین ہونے کے لئے امیر کبیر ہونا ضروری نہیں‘ پہلے امیر کبیر بننے کا ریکارڈ انہوں نے قائم کیا۔ وہ امیر المومنین تو نہ بن سکے مگر بہت امیر کبیر بن گئے ‘ اپنے ساتھ اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کو بھی امیر کبیر بنا گئے۔
قاضی صاحب خاندانی آدمی تھے۔ ان کا خاندان اور قبیلہ بہت عزت اور مقام رکھتا تھا۔ مگر امیرجماعت کے طور پر ان کی سادگی اور درویشی کا چرچا تھا۔ اتنا خوبصورت اور آسودہ چہرہ میں نے سیاست کے میدان میں کم کم دیکھا ہے۔ خوبصورت لوگ تو ہیں مگر جس خوبصورتی میں ایمانی استقامت‘ مروت ‘ محبت‘ خدمت کی روشنی ہوتی ہے۔ وہ قاضی صاحب کے چہرے پر سجی ہوئی تھی وہ پکے سچے مسلمان تھے مگر کبھی کسی عقیدے‘ نظریے کے اختلاف میں اعتراف کی گنجائش نکال لیتے تھے۔ کبھی کسی پر برہم نہ ہوتے۔ ذاتی تعلقات میں اتنی پذیرائی‘ دانائی اور گہرائی کسی اور کو نصیب نہ ہوئی ہو گی۔ میں یہ کہوں کہ جماعت کے مخالف ان کو اپنا دوست دیکھتے تھے۔ جماعت اسلامی کے لئے ایک خاص نقطہ نظر لوگوں کے دلوں میں ہے مگر سارے دلوں میں قاضی صاحب نے جماعت اسلامی اور اسلام کیلئے اپنائیت لکھ دی تھی جو کبھی مٹائی نہیں جاسکے گی۔ وہ سید مودودی کے عاشق تھے۔ اقبال اور فیض کے حافظ تھے۔ ایک بار ایک محفل میں بے نظیر بھٹو سے کہا کہ آپ اقبال کا اسلام نافذ نہیں کرسکتے تو فیض احمد فیض کا اسلام اپنا لو۔ دوستوں نے تو ان کے لئے دل کی تمناؤں میں قلم ڈبو کے لکھا۔ انہوں نے بھی لکھا جو جماعت کے معاملات پر تنقید لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کی محبت میں بہت سیکھا۔ کبھی کبھی مزاح کی شکل میں ان کے خلاف بھی لکھ دیا۔ ایک سیمینار میں وہ سٹیج پر تھے اور میں پچھلی سیٹوں پر تھا۔ اجلاس کے بعد وہ لوگوں کے درمیان سے سیدھے میرے پاس آئے۔ ایک بزرگانہ نظر نہ آنے والی خفگی کے ساتھ مجھے فرمایا کہ تم تو ہمارے دوستوں میں سے ہو تو یہ آج کل کیا لکھ رہے ہو۔ ان کے اس طرز کلام سے شرمندہ سی خوشگواریت کا احساس ہوا۔ میری گستاخی کے باوجود انہوں نے مجھے اپنے دوستوں میں شمار رکھا۔ میں ان سے کم اور اپنے آپ سے زیادہ شرمسار ہوا۔ یہ شرمندگی میرے اندر تھی جو صرف انہیں نظر آئی اور وہ میری خاموشی کی معذرت کو محسوس کر کے آگے گزر گئے۔ پھر جب اس جہاں سے گزر گئے تو میں ان کی نگاہوں کی انوکھی شفقت کو ہمیشہ دل میں محسوس کرتا ہوں۔ وہ میری بیٹی تقدیس کی شادی میں آئے۔ نکاح بھی خود پڑھایا۔ میں اس اعزاز کو نہ بھولوں گا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو اسلام کا نمائندہ بنا کے رکھا۔ جماعت اسلامی کو جماعت عوامی بنایا۔ اسلام عوام تک پہنچے تو بات بنے۔
قاضی حسین احمد نے اتحاد بین المسلمین بنائی۔ وہ خود صدر تھے ‘ حافظ حسین احمد سیکرٹری جنرل تھے‘ تمام مکاتب فکر کے لوگ چودہ نکات پر متفق ہوئے۔ آج بھی یہ چودہ نکات امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے چراغ راہ ہیں۔ ان کی ان جیسی بیٹی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ میں نے اتنی وقار اور اعتبار والی خاتون زندگی میں نہیں دیکھی۔ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹی ہیں مگر میں انہیں اپنی بڑی بہن کی طرح سمجھتا ہوں۔ وہ ایم این اے تھیں صرف ان کی وجہ سے میں مخصوص نشستوں کی اسمبلیوں میں حمایت کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ خاتون ممبران اسمبلی کو ان کی طرح ہونا چاہئے۔ تب ن لیگ کے جاوید ہاشمی نے اپنی ایم این اے بیٹی بی بی میمونہ کو سمیحہ کے سپرد کیا اور کہا کہ اسے بھی اپنے جیسا بنا دو۔ وہ مردوں سے بھی بڑھ کر پارلیمنٹرین تھیں۔ سب سے زیادہ بل انہوں نے پیش کئے اور پاس بھی کرائے۔ جن میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی بہت کچھ تھا۔ انہوں نے ’’خاندانی نظام اور عصری تہذیبی چیلنجز‘‘ کے موضوع پر ایک ضخیم اور دقیع مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ کئی کئی بار ممبران اسمبلی بننے والے ابھی تک پارلیمنٹرین ہونے کی اہلیت نہیں پا سکے۔ ایک بار ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران کسی ایم این اے خاتون نے یہ کہہ دیا کہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اپنے والد کی وجہ سے اسمبلی میں آئی ہیں ؟ ڈاکٹر صاحبہ ایک جینوئن سکالر خاتون ہیں۔ جماعت اسلامی کے لئے بھی ان کی بڑی خدمات ہیں۔ وہ جماعت کی طرف سے ویمن اینڈ فیملی کمشن کی صدر ہیں۔ میں نے اور میری اہلیہ رفعت نے ان کے دفتر کو وزٹ کیا۔ بہت کام انہوں نے کیا ہے۔ انہوں نے اپنا اور اپنے عظیم والد کا نام روشن کیا ہے‘ انہیں اپنے والد کے ساتھ ساری نسبتوں اور رشتوں پر فخر ہے۔ یہ کم کم لوگ جانتے ہیں کہ نامور والد کے ساتھ بھی کئی رشتے ہوتے ہیں۔ ان میں احترام بھی ہے اور مقام بھی ہے۔ وہاں خاص طور پر جناح ہسپتال میں گائنی کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر امت الازریں کا ذکر ہوا۔ میری اہلیہ ان کی بہت مداح ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بھی ان کا خاص طور پر ذکر کیا۔ وہ سمیحہ بی بی کی طرح مکمل حجاب میں رہتی ہیں اور پورے ذوق و شوق اور ساری اہلیتوں‘ مہارتوں کے ساتھ تمام امور کو بذات خودنمٹاتی ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔
اپنے مرحوم والد قاضی حسین احمد کو بہت یاد کرتی ہیں۔ انہیں ایک سائبان قرار دیتی ہیں۔ چھاؤں اور خوشبو سے بھرا ہوا یہ سائبان اب تک ان کے سر پر قائم ہے۔ وہ اپنے مرحوم اور مہربان شوہر کو بھی یاد کرتی ہیں۔۔ سمیحہ بی بی کے اس بامعنی اور خوبصورت جملے سے اپنی تحریر کو روشن کرتا ہوں۔ ’’بیٹی کے آنچل میں باپ کے آدرش کی قندیل ہمیشہ جلتی رہتی ہے‘‘