• news

سینٹ: الطاف حسین کے بیان پر پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ متحدہ میں جھڑپ‘ ہنگامہ‘ غداری کیس پر شجاعت اور مشاہد اللہ میں الفاظ کی جنگ

اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) چیئرمین نیئر بخاری کی زیرصدارت سینٹ کے اجلاس میں کریم خواجہ نے کہا لندن میں بیٹھ کر دوہری شہریت رکھنے والا پاکستان توڑنے کی باتیں کرتا ہے۔ الطاف حسین کے سندھ کی تقسیم کے بیان پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کیلئے 22 ویں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے مخالفت نہ کرنے پر بل قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ سینٹ میں سٹیٹ بینک کو اسلام آباد منتقل کرنے کی قرارداد پر بحث کی گئی۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا آج سندھ کو تقسیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہم آپ کو زمین دیں، آباد کریں اور آپ ملک توڑنے کی بات کریں۔ آپ کب تک الگ ہوتے رہیں گے۔ اردو زبان یہاں کی نہیں تھی مگر اْسے قومی زبان بنا دیا گیا۔ سینیٹر اور صدر (ق) لیگ چودھری شجاعت نے کہا ملک میں غداری کیس کا چرچا ہے۔ غدار وہ ہوتا ہے جو دشمن ملک سے مل جائے۔ آئین میں لفظ غدار شامل نہیں ہونا چاہئے۔ غدار کی بجائے آئین شکن کا لفظ استعمال کر لیا جائے۔ اسی نام نہاد غدار سے حلف بھی لیا گیا تھا۔ مقدمہ چلانا ہے تو پھر 12 اکتوبر سے شروع کیا جائے۔ 3 نومبر سے بھی مقدمہ شروع کریں تو سینکڑوں افراد اس کی زد میں آتے ہیں۔ 3 نومبر کیس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پرویز الٰہی کا نام بھی شامل ہوگا۔ وقائع نگار کے مطابق سینٹ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے کریم احمد خواجہ نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا جس صوبہ کی قرارداد پر پاکستان بنا آج اسے ہی تقسیم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ الطاف حسین کے بیان پر برطانوی حکومت کو نوٹس لینا چاہئے کہ کیسے ایک شخص لندن میں بیٹھ کر ملک توڑنے کی باتیں کر رہا ہے، کریم خواجہ کے اس بیان پر ایوان میں بیٹھے ایم کیو ایم کے واحد سینیٹر ڈاکٹر عبدالحسیب نے شدید اعتراض کرتے ہوئے احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کیا جس پر چیئرمین نیئر حسین بخاری نے کہا میں اسی وجہ سے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا۔ آپ یہ معاملہ نکتہ اعتراض کی بجائے تحریک التوا کے ذریعہ لائیں۔ سینٹ کے اجلاس کے دوران غداری کیس پر چودھری شجاعت حسین اور مشاہد اللہ کے ماین الفاظ کی جنگ اپنے عروج پر نظر آئی، نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا آج کل غداری کیس کے بہت چرچے ہیں، غدار تو وہ ہوتا ہے جو اپنے ملک کے خلاف دشمن ملک کا ساتھ دے، آئین میں لفظ غدار کی غلط تشریح کی جا رہی ہے، لفظ غدار کی بجائے آئین شکن کا لفظ استعمال کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا ہم نے اپنے ہی آرمی چیف کو غدار بنا دیا تو دنیا میں کیا عزت رہے گی۔ چودھری شجاعت کا کہنا تھا غداری کیس 12اکتوبر سے شروع کیا جائے اور اس میں پرویز کیانی، افتخار چودھری، پرویزالٰہی اور مجھے بھی شامل کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کارروائی 12اکتوبر سے شروع کی گئی تو سب سیاسی جماعتیں روئیں گی، مشرف کے خلاف کارروائی کی مخالفت اسکے بوٹ صاف کرنے والے اور آمریت کے حمایتی ہیں، ان کا کہنا تھا مشرف ہسپتال میں بیٹھ کر پراپرٹی کا کاروبار چلا رہے ہیں، کوئی تو بتائے مشرف ایماندار تھا تو گریڈ 22کی نوکری میں اربوں کی جائیداد کیسے بنا لی۔ جو شخص اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرے گا تو غدار ہی کہلائے گا۔ مشاہد اللہ کا مزید کہنا تھا نجانے لوگ کیسے آج بھی مشرف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے فیصلہ کر لیا جائے ریاست کو بچانا ہے یا آئین کی پاسداری کی جائے۔ انہوں نے کہا پرویز مشرف اب بھی ہسپتال میں بیٹھ کر اپنے دبئی اور لندن میں موجود فلیٹس کے سودے کر رہے ہیں۔ انہوں نے عدالت میں پیش نہ ہوکر عدلیہ کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا پہلی بار کسی حکومت نے یہ جرأت کی اس سے قبل لوگ ڈکٹیٹرز کے جوتے پالش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا جو لوگ ویسے کبھی وزیر یا وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے تھے انہوں نے آمریت کا ساتھ دے کر یہ شرف حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا ایسے وقت میں پوری قوم اور سیاست دانوں کو متحد ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا جو لوگ آج 12اکتوبر سے مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جب 12اکتوبر سے شروع کیا تو یہ مطالبہ کریں گے ضیاء الحق سے شروع کر دیں دراصل ان کا مقصد اس کارروائی کو رکوانا ہے۔آن لائن کے مطابق  پیپلز پارٹی کی جانب سے  سینٹ میں مطالبہ کیا گیا الطاف حسین  برطانوی شہری ہیں وہ ملک  توڑنے کی باتیں  کررہے ہیں،  اس لئے برطانوی حکومت نوٹس لے جس پر  ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالحسیب  خان نے کہا یہ  بکواس نکتہ اعتراض  ہے  جس پر  پیپلز پارٹی اور اے این پی نے  احتجاج کیا۔ چیئرمین سینٹ نے  سب کو خاموش کرا دیا۔  نکتہ اعتراض پر  سینیٹر احمد  کریم خواجہ نے کہا  پاکستان کے  حق میں پہلی قرارداد سندھ  نے پاس کی  یہ  پانچ ہزار سال پرانی تہذیب  ہے جس کو کوئی  توڑ نہیںسکتا۔ اب الطاف حسین  پاکستان اور سندھ   توڑنے کی باتیں  لندن  سے بیٹھ کررہے ہیں، الگ ملک بنانے کی بھی بات کر رہے ہیں،  الطاف حسین  دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ برطانوی  حکومت اس کا نوٹس لے سندھ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالحسیب  خان نے کہا  یہ  بکواس  نقطہ  اعتراض ہے  جس پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے سینیٹرز نے  احتجاج کیا  یہ غیر پارلیمانی زبان  ہے۔ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری  نے  کہا یہ لفظ  مائیک پر نہیں کہا گیا   اس لئے اس کو حذف کرنے کی ضرورت نہیں اس حوالے سے بحث  کرنی ہے تو تحریک پیش کی جائے۔ اے این این کے مطابق سول سرونٹس ایکٹ 1973ء میں مزید ترمیم کا بل سول سرونٹس (ترمیمی) بل 2013ء پر غور موخر کر دیا گیا۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں یہ بل ایجنڈے پر تھا لیکن اس کے محرک سینیٹر محسن لغاری نے درخواست کی اس پر غور موخر کر دیا جائے جس پر چیئرمین نے اس بل پر غور موخر کردیا۔ اے این این کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم نے سٹیٹ بینک کا ہیڈ کوارٹرز کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے سے متعلق اے این پی کی تحریک کی مخالفت کر دی۔ چیئرمین سینٹ نے کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اے این پی کے سینیٹر اور پارلیمانی لیڈر حاجی عدیل کو قومی لباس اور قومی زبان پر تنقدی کرنے سے روک دیا اور انہیں واپس موضوع کی طرف لے آئے۔ نیٹ نیوز کے مطابق الطاف حسین کی جانب سے سندھ کی تقسیم کے بیان پر سینٹ میں شدید شور شرابہ ہوا۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے ارکان ایم کیو ایم پر برس پڑے۔ وقائع نگار کے مطابق پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ملک میں سکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا وقت آ گیا ہے گمشدہ افراد کے معاملے پر ایک قانون بنایا جائے۔ آن لائن کے مطابق سینٹ میں ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا طالبان سے مذاکرات کے بارے میں واضح پالیسی اپنائے اور سرحد پار دہشت گردی کا سلسلہ بند کیا جائے، حکومت بلوچستان کی صورت حال پر کنٹرول کرے ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ سینیٹر رضا ربانی کی ملک میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا ملک میں خراب سکیورٹی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ سرحد پار سرگرمیاں ہیں۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل ریٹائرڈ طاہر حسین مشہدی نے کہا ملک میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں اور کسی جگہ بھی حکومت کی عملداری نظر نہیں آتی۔ سینیٹر خالدہ پروین نے کہا ایوان میں غریب عوام کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ سینیٹر شاہی سید کا کہنا تھا موجودہ حکومت حالات کی خرابی کی ذمہ دار نہیں۔اے پی پی کے مطابق پیپلزپارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عوام کو سیاسی شعور دیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر مختار عاجز دھامرہ نے کہا سندھ میں الگ صوبہ بنانے کے بیان کی مذمت کرتے ہیں، اردو بولنے والے الگ صوبہ نہیں چاہتے، ملک کو نئی آگ میں نہ دھکیلا جائے۔ ایوان بالا کا اجلاس (کل) بدھ کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن