یوتھ لون پر فتویٰ ۔۔۔اور اسے مزید سود مند بنانے کی ضرورت
یوتھ لون پر فتویٰ ۔۔۔اور اسے مزید سود مند بنانے کی ضرورت
وزیر اعظم نواز شریف کی یوتھ لون سکیم کا آغاز ابھی ہوا ہی ہے کہ اس پر ایک فتویٰ آگیا ۔چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا کی اپیل پر سنی اتحاد کونسل کے تیس مفتیوں نے اپنے اجتماعی فتویٰ میں کہا ہے کہ سود پر لیا جانے والا قرض اور اس سے کیے جانے والا کاروبار حرام ہو گا۔ سودی قرضے کا حصول واستعمال حرام اور گناہ عظیم ہے۔ یوتھ لون سکیم کو سود سے پاک کیا جائے کیونکہ سورہ البقرہ میں سود کو اللہ اور رسول اللہؐ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے سود کو زنا سے بھی سخت گناہ قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے سود کھانے، کھلانے اور سود کا حساب لکھنے والے پر لعنت کی ہے۔ اس لیے حکومت قرض حسنہ کی بنیاد پر سکیم شروع کرے جو قرآن و سنّت سے متصادم نہ ہو۔حکومت سود خوری جیسے سنگین جرم اور گناہ عظیم پر خاموش تماشائی بننے کی بجائے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ سودی نظام کا متبادل نظام موجود نہیں، محض ایک عذر کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت بلاتاخیر سرکاری سطح پر شرعی بورڈ تشکیل دے جو کم سے کم مقررہ مدت میں مطلوبہ نظام تشکیل دے۔صاحبزادہ حامد رضا نے اعلان کیا کہ سنی اتحاد کونسل سودی نظام کے خلاف ملک گیر مہم چلائے گی اور سود کے خلاف ہر مسجد اور مدرسے سے آواز اٹھائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے سود سے پاک متبادل نظام کی تیاری کے لیے شرعی بورڈ بھی تشکیل دے دیا ہے۔
سود خور قرض دیتے ہیں تو قرض کی واپسی کی کوئی شرط اور معاہدہ نہیں ہوتا ۔ فریقین کے درمیان معاہد ہ ہر ماہ سود کی ادائیگی کا ہوتاہے ۔جس مہینے کی سودکی قسط مس ہوگئی اس کو بھی قرض کی رقم میں شامل کرکیماہانہ سود کی وصولہ میں اضافہ کر لیا جاتا ہے ۔ سود پر رقم لینے والاشخص ساہوکار کے چنگل سے کبھی نہیں نکل پاتا۔اگر کوئی نکل آئے تو خوش قسمت ہے۔بالآخر سود پر رقم لینے والاخود کشی کر لیتا ہے یا اس کو جائیداد اور گھر باربیچ کر جان چھڑانا پڑتی ہے ۔ ایک قرض بینک دیتے ہیں قرض کے ساتھ ہی بمعہ سود اس کی واپسی بھی شروع ہوجاتی ہے۔بینک سے قرض لینے والا اس سے اپنا کاربار شروع کر کے اسے کئی گنا بڑھا لیتا ہے۔اس کے لئے قسط کی سود اور اصل زرکی ادائیگی مشکل نہیں ہوتی ۔ بینک میں رقم رکھوانے والے بھی بینک سے منافع لیتے ہیں۔اس سود کو پرافٹ کا نام دیا جاتا ہے ۔بینک سے قرض لینے والے بھی کبھی ڈوب جاتے ہیں تاہم ان کو قرض معافی کی سہولت بھی حاصل ہے ۔اس سے استفادہ عموماً بڑے لوگ سیاسی اثرو رسوخ استعمال کر کے کرتے ہیں۔ بنک سے قرض لے کر کاروبار کرنے والے انشورنس کراکے حادثاتی نقصان سے بھی بچ جاتے ہیں۔
نبی کریم ؐ کے دور میں سود کی کیا نوعیت تھی؟۔آج کی بینکاری میں جو سود رائج ہے وہ یقینا اُس دور میں نہیں تھا۔چونکہ سود ،سود ہے اس کی جو بھی نوعیت اور شکل ہو۔آپ جس منافع کو بھی سود کا نام دے دینگے اس کی حرمت پر بحث لا حاصل ہے ۔ 30مفتیانِ کرام نے سود کی قرآن و حدیث کی روشنی میںحرمت کی بات کی ہے وہ یہ بھی بتا دیں کہ کو نسا منافع جائز ہے؟ بینک چونکہ اپنے پاس جمع ہونے والی رقم پر منافع دیتے اور آگے کاروبار کے لئے ادھار دے کر زیادہ منافع لیتے ہیںاور پھر کاروبار میں خسارہ ہونے پر قرض معاف کرنے کی بھی گنجائش ہے ۔ فتویٰ جاری کرتے وقت کیا یہ سب جزیات علمائے کرام کے پیشِ نظر تھیں؟ملک میں واقعتا لوگ سود سے پاک بھی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ رہنمائی کے لئے علمائے کرام کی طرف دیکھتے اور ان سے رجوع کرتے ہیں۔ان کو مضاربہ اور مشارکہ کے تحت کاروبار کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔
جہاں بھی ان سے فراڈ ہوجائے تو وہ کہاں جائیں اور کس پر اعتبار کریں۔گزشتہ سال مفتی احسان الحق کو مضاربہ کے نام پرپانچ سو ارب روپے کے فراڈ پر نیب نے گرفتار کیا تھا چند روز قبل کراچی میں اسی الزام میں مولانا شفیق الرحمان کو سی آئی اے نے گرفتارکیا۔ ملزم پر مضاربہ کے نام پر لوگوں سے اربوں روپے بٹورنے کا الزام ہے جبکہ اس کے دو بھائی عدنان اور انعام پہلے ہی گرفتار تھے۔
سودی نظام کا آج خاتمہ کردیا جائے تو کھربوں ڈالر کا کاروبار بند ہوجائے گا ۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہونگے ۔ مفتیان کو سودی بنکاری کے متبادل نظام تجویز کرنا چاہیئے تھا ۔ سنی اتحاد کونسل نے کہا ہے کہ اس نے سود سے پاک متبادل نظام کی تیاری کے لیے شرعی بورڈ بھی تشکیل دے دیا ہے۔یہ کام فتوے سے پہلے ہوجاتا تو بہتر تھا ۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ بورڈ سود سے پاک متبادل نظام کی تیاری میں کتنا وقت لے گا۔
فتویٰ سے قطع نظر حکومت اگر واقعی نوجوانو ں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مددگار بننا چاہتی ہے تو قرض کی شرائط نرم کرے۔ گارنٹی کی شرط پر تو کوئی کوئی پورا اتر سکتا ہے ۔اگر خد مت خلق کا جذبہ ہے تو آٹھ فیصد سود کا بھی خاتمہ کیا جائے۔حکومتی آمدن کے اور بہت سے ذرائع ہیں ۔ قرض لے کر کاروبار کرنے والے لوگوں سے منافع نہ بھی لیا جائے تو سرکار کے خزانے میں کمی واقع نہیں ہوگی ۔ نواز شریف حکومت نے چار سو ارب کا سرکولر ڈیٹ چند ہفتے میں ادا کردیا ۔ وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں انہیں نہیں پتہ کی اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی جس کا انتظام وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا۔ میاں نواز شرف ایک بار پھر اسحاق ڈار سے سو ارب کے بجائے دو سو ارب کا بندوبست کرنے کو کہیں تاکہ دو لاکھ نوجوان قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کرسکیں اور یہ قرض بلا سود ہو ۔واپسی کے لئے سات سے دس سال کر دئیے جائیں تو یہ نوجوانوں پر ایک اور احسان ہو گا ۔