جنرل (ر) مشرف کو سزا سے بچانے کی مہم کیوں؟
جنرل (ر) مشرف کو سزا سے بچانے کی مہم کیوں؟
فرعونی سوچ اور عمل کا ’’نمونہ‘‘ جنرل (ر) مشرف پر ہائی ٹریژن کا مقدمہ کیا شروع ہُوا مُلک میں افواہ سازی، منفی نتائج، جان بچائو پروپیگنڈہ مشینری پوری طاقت سے حرکت میں آ چکی ہے۔ کئی ’’پہلوئوں اور طریقوں‘‘ سے مشرف کو موت کی سزا یا عمر قید سے بچانے کیلئے ملک کے اندر اور باہر (غیر ممالک/ بڑی طاقتیں) بڑی منظم مہم کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اندرونِ ملک مشرف بچائو، فرار (پناہ، معافی) کی آپشن پر درپردہ مسلسل ’’گیم‘‘ چل رہی ہے۔ اگر پاکستان کے اندر آئین کی سربلندی، برابری کی سطح پر انصاف، قانون کا نفاذ، میرٹ پر فیصلے، جمہوریت کا تن آور درخت بنانا جیسے اعلیٰ مقاصد کا حصول نصب العین ہے (جو کہ حکمرانوں کا نظر نہیں آتا) تو پھر ہر حال میں قانون کی زد میں جو بھی آئے پورا پورا انصاف کیا جائے کے اصول کے تحت جنرل (ر) مشرف کو بھی شفاف، غیر جانبدار انصاف کے کٹہرے اور عدالتی کارروائی کے نتیجہ، میں اگر جرم ثابت ہو جائے تو قانون کے مطابق سزا دی جائے اگر قصور وار ثابت نہیں ہوتے تو بری کر دیا جائے گا۔ بڑا سنگین مسئلہ یہ ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالتی حکم کے تحت بیرون ملک روانگی پر اجازت کا بیان دے کر ’’دال میں کالا‘‘ کا مقولہ زبان زدعام کر دیا ہے۔ دعویٰ تو خواجہ آصف یہ کرتے ہیں کہ ہم کسی حال میں بھی مشرف کو بیرون ملک جانے نہیں دیں گے لیکن ساتھ ہی وزیر دفاع نے یہ بیان دے کر گنجائش نکال دی ہے کہ ’’عدالت‘‘ فیصلہ کر دے تو جا سکتے ہیں! یہ عدالت کے کورٹ میں بال پھینکنے کی کوشش ہے مطلب یہ کہ حکومت خود یہ ’’بھاری پتھر‘‘ نہیں اُٹھا سکتی کہ مشرف کو ’’قید‘‘ میں رکھا جائے۔ میڈیکل رپورٹیں یہ ثابت کر رہی ہیں (اخبار کی خصوصی سٹوری) کہ دل کی نالیاں بند ہیں، دماغی ڈپریشن زیادہ ہے، بائی پاس آپریشن لندن یا امریکہ میں کرانے کی نوبت آ سکتی ہے۔ (فوجی ہسپتال انتظامیہ ہر بات خفیہ رکھ رہی ہے کیوں؟)
جنرل (ر) اسلم بیگ نے ایک نئی کہانی بیٹھے بٹھائے بنا ڈالی ہے ’’امریکہ پرویز مشرف کو پھانسی دلوانے اور اسی بہانے نواز شریف کی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘ بندہ اپنا سر نہ پیٹے تو کیا کرے؟ جنرل (ر) بیگ جیسا جمہوریت کا سرپرست جرنیل بھی جنرل (ر) مشرف کو سزا ملنے کی صورت میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور ’’بڑوں‘‘ کو بتا رہے ہیں کہ سزا دینے سے ’’جمہوریت‘‘ اور وزیراعظم خطرے میں ہیں۔ جنرل (ر) اسلم بیگ پہلے یہ تو بتا دیں کہ سیکرٹ فنڈ یا کسی اور مد سے بطور آرمی چیف سیاستدانوں کو خریدنے اور جمہوریت میں پیسے دے کر نتائج حاصل کرنے کے الزامات اور مقدمے میں جنرل (ر) اسلم بیگ کی سپریم کورٹ میں پیشی (کئی مرتبہ) سے تو جمہوریت کو کوئی خطرہ نہ ہوا۔کیوں جنرل (ر) بیگ مشرف بچائو مہم کا آغاز کر رہے ہیں وہ آئین قانون، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدآرمد کی بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا مشرف سے کوئی فائدہ ملا تھا؟ اگر ایک جرنیل کو اُس کے ’’کالے اعمال‘‘ کی سزا قانونِ قدرت (خدا تعالیٰ) کے تحت ملنے جا رہی ہے تو ریٹائرڈ جرنیل یا جرنیلوں کو کیوں تکلیف شروع ہو گئی ہے؟ جنرل (ر) اسلم بیگ کو معلوم ہے کہ اسلام آباد ہی میں، اُن کے نزدیک، کئی چار اور تین ستارہ ریٹائرڈ جرنیلوں نے کم از کم چار مرتبہ (آرمی، نیوی، ائر فورس کے شامل ہیں) پریس کانفرنس میں یہ مطالبہ بار بار کیا کہ آئین شکن مشرف کو کارگل میں سینکڑوں افسر جوان مروانے (شہید) کے بعد بھارتی پہاڑیاں فتح کر کے مورچے اور قبضہ چھوڑنے کے الزام اور وزیراعظم میاں نواز شریف کو کارگل آپریشن کا بتائے بغیر بھارت سے جنگ چھیڑنے کے الزام میں کارگل کمشن بنا کر سخت سزا دی جائے۔ مزید مطالبہ یہ ہے کہ 12 اکتوبر 99ء میں جمہوریت ختم کر کے آئین شکنی کے ارتکاب پر آرٹیکل 6 کے تحت موت کی سزا دی جائے۔
ریٹائرڈ تین اور چار ستارہ جرنیلوں میں حمید گل، شاہد عزیز، منصور الحق نیول چیف، خواجہ ضیاء الدین، علی قلی خان اور ایکس سروس مین سوسائٹی کے کئی بڑے جرنیل شامل ہیں یہ۔ سب جرنیل بھی چار ستارہ یا تین ستارہ رہے ہیں تھوڑے فرق سے (بہ لحظ عہدہ) آرمی چیف بننے کے اہل یا قریب تر تھے اِن تمام جرنیلوں کو تو نہ آصف علی زرداری، یوسف گیلانی یا راجہ پرویز اشرف کی جمہوری حکومت ختم ہونے کے امکانات نظر آئے نہ یہ اب شاید ممکن ہے کیونکہ فوج موجودہ اندرونی خلفشار میں نیا محاذ اور ملک میں آئین شکنی کو اپنے ادارے اور ملک کیلئے انتہائی نقصان دہ سمجھتی ہے۔ جنرل کیانی کو کم از کم تین سے زائد مواقع ملے جب وہ مارشل لا لگا سکتے تھے لیکن جمہوریت پسند جرنیلوں نے جنرل کیانی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر رکھا۔ خود بیگ صاحب نے ضیاالحق کے ائر کریش میں انتقال کے بعد موقع ملنے کے باوجود حکومت پر قبضہ نہ کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی آئین اور سپریم کورٹ کا ملزم، خواہ کوئی جنرل (ریٹائرڈ) کیوں نہ ہو اُسے کیوں رعایتیں دی جائیں، کیوں؟ کوئی ٹھوس دلیل تو ہو۔
کیا ملک میں کوئی حقیقی نظام بننے دینا ہے یا نہیں؟ فوج بہرحال آئینی پابندی کے تحت، وزیراعظم پاکستان کے احکامات کی پابند ہے۔ جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بن کر جمہوریت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا اور اب تک شاید مشرف (ر) جنرل کے اور آرمی چیف بننے کے مبارکباد کا جواب بھی نہیں دیا اگر دیا ہوتا تو بی بی سی کو انٹرویو میں ’’مبارکباد کا خط لکھنے‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتا دیتے کہ جنرل راحیل نے مجھے جواب دیا یا ملاقات کا کہا ایسا کچھ نہیں ہُوا تو جنرل راحیل شریف کو اشاروں میں کیوں بتایا جا رہا ہے کہ ’’فوج میرے بغاوت کے مقدمے پر پریشان ہے؟ گراس روٹ لیول تک فوجی مجھے یاد کرتے ہیں؟‘‘ (مشرف کا بی بی سی کو انٹرویو)! ایسی مذموم مہم سے فوجی سربراہ کو متنازعہ بنانا قابل مذمت ہے۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل کی خاطر ملک کا بیڑہ غرق نہیں کیا جا سکتا جس نے آئین شکنی کی وہ بھگتے۔ قانون کی عملداری سے ملک کا مستقبل ہے۔