الطاف حسین کی بوکھلاہٹ اور سیاسی طوائف الملوکی
الطاف حسین کی بوکھلاہٹ اور سیاسی طوائف الملوکی
کیا ہم ایک قوم ہیں اور بحیثیت ایک قوم ہونے کے کیا ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہے۔ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب پاکستانی عوام کے پاس یقیناً نفی میں ہو گا یا خاص گروپ مذہبی اور سیاسی دھڑے جنہوںنے قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیاہے کہیں مذہب کے نام پر، کہیں لسانیت کے نام پر، کہیں فرقہ بندیوں کے نام پر اور کہیں نظام کے نام پر۔ سقوطِ ڈھاکہ تک مملکت عزیز 3 مارشل لائوں کے زیر عتاب آ چکا تھا اور نہ صرف طالع آزمائوں نے بلکہ سیاسی طوائف الملوکی نے اس نوزائیدہ مملکت کو جڑ ہی نہ پکڑنے دی۔ قوم ابھی بمشکل سانحۂ مشرقی پاکستان کے زخم مندمل نہ کرنے پائی تھی کہ بم دھماکوں اور بارود کی فضا نے ہمارے رہے سہے اوسان خطا کر دیئے اس سے پہلے آمر ضیأالحق کے دور میں ملنے والے تحفوں میں سے ایک تحفہ ایم کیو ایم کا بھی ہے۔ آمر نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے ایک ایسا فتنہ چھوڑا کہ جس کے نتائج اب کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں مگر نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت 1992ء میں جب کراچی میں آپریشن کلین اپ ہُوا جس میں سول حکومت کی بجائے عسکری قیادت کی زیادہ مرضی شامل تھی اور اس وقت نواز شریف نے بھی پیپلزپارٹی کی طاقت کو منقسم کرنے کیلئے سندھ میں جیتی ہوئی پیپلز پارٹی کو سپر سیڈ کر کے اقتدار جام صادق کے حوالے کر دیا اور ایم کیو ایم کو کھلی چھٹی دے دی۔ عسکری آپریشن جاری تھا کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین اپنے متعدد ساتھیوں کے ساتھ ملک سے باعزت اور محفوظ راستے سے فرار کرا دیئے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں جنرل نصیر اللہ بابر نے پھر کراچی آپریشن کو شروع کیا اگر اس وقت یہ مفرور قیادت پاکستان میں موجود ہوتی تو یہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو ضرور پہنچتا۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے لوگ نہ صرف محب وطن تھے بلکہ ان کی اولادیں اور نسلیں آج پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ایک مضبوط وفاق قائم رکھنے کیلئے پاکستان کیلئے ایک ایسا قومی لباس اور ایک ایسی زبان تجویز کی اور پسند فرمائی جس کا اس خطے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔ پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، بلوچستان میں بلوچی، خیبر پی کے میں پشتو اور کشمیر میں کشمیری جبکہ سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی بولی اور پڑھی جاتی تھی مگر ہمارے پاکستان کے عوام نے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان دونوں چیزوں کو اپنا لیا حتیٰ کہ پنجاب میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں مہاجرین جو نہ تو اپنے آپ کو مہاجر کہلاتے ہیں مگر انہوں نے پنجابی کو اپنی علاقائی زبان کے طور پر تسلیم کر لیا بلکہ انکی اولادیں بالکل اسی طرح جسے اندرون لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد مقامی پنجابی بولیاں بولتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ کراچی میں جا بسنے والے ایک مخصوص گروپ نے سندھی میں رچنے بسنے کی بجائے لکھنؤ اور احمد آباد کی زبان کو سینے سے لگائے رکھا۔ خود الطاف بھائی بھی برطانیہ سے بھارت جا کر جوشِ خطابت میں جو کچھ پاکستان کے متعلق کہہ آئے ہیں ’’کہ خدانخواستہ پاکستان کا قیام ایک بہت بڑی غلطی تھی‘‘ اسکے بعد تو کوئی گنجائش نہ رہ جاتی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کی وطن پرست قیادت الطاف بھائی سے جان چھڑا لیتی۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں الطاف بھائی کے علیحدہ صوبہ کے قیام اور دوسری صورت میں علیحدہ ملک کے قیام کا مطالبہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ وجوہات تلاش کی جائیں جو اس بیان کی محرکات ہو سکتی ہیں-1 ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات نے الطاف بھائی کو براہِ راست شامل تفتیش کرنے اور انکے قریبی رفقاء کو زیر حراست لینا اور ان کے برطانیہ چھوڑنے پر پابندی اور اسی کیس کے دوران تفتیش کا رُخ یکدم منی لانڈرنگ کی طرف مڑنا اور الطاف بھائی کے لندن والی رہائش گاہ سے برآمد ہونیوالی رقوم اور ثبوت جس کے بعد الطاف بھائی کے ڈپریشن کا یہ عالم تھا کہ موصوف نے امریکہ اور برطانیہ کی قیادتوں کو للکارنا اور دھمکانا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں الطاف بھائی کے موجودہ بیان سے دو روز قبل رابطہ کمیٹی کی جانب سے لکھا گیا برطانوی قیادت کو خط بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے -2 پچھلے چند ماہ سے ایم کیو ایم اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور تنظیم کے اندر ٹوٹ پھوٹ جس کے نتیجے میں پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے بشمول سابقہ ناظم کراچی مصطفیٰ کمال و دیگر نے الطاف حسین کے چنگل سے بھاگ کر دوبئی ،کوالالمپور اور سنگاپور میں پناہیں تلاش کر لی ہیں اور مزید انتشار تیاری کے آخری مراحل میں ہے -3 گذشتہ الیکشن میں کراچی کے دو حلقوں میں نادرا کی نشاندہی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ووٹوں کو مسترد کیا گیا اور دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں متحدہ کے حریف امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان حالات میں پارٹی قیادت کا رہا سہا مورال بھی بہہ گیا -4 باوثوق ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پچھلے 6 سال سے جو کہ پیپلز پارٹی کی حلیف رہی جس میں آخری 3 سال جبراً حلیف بنا کے رکھا گیا کیونکہ رحمان ملک نے سری لنکا سے آنے والی فلائیٹ سے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے دو ممکنہ قاتل ائر پورٹ سے ہی دبوچ لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 3 سال ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور زرداری کے نعرے مارتی رہی۔ اس ساری صورتِ حال سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ایم کیو ایم جس کا حال اقتدار کے بغیر ’’ماہی بے آب کی طرح ہے‘‘ اور حالات بتاتے ہیں کہ آئندہ چند روز میں لندن پولیس اور عدالتیں کوئی بریکنگ نیوز دینا چاہ رہی ہیں جس کی بُو سونگھتے ہی الطاف بھائی نے موجودہ بلدیاتی نظام آرڈیننس اور پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کو وجہ بنا کر اپنی گھبراہٹ اور سراسیمگی کا اظہار کیا ہے5۔ کراچی اپریشن میں متحدہ کے کارکن پکڑے جا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کے دفاتر سے بھارتی اسلحہ پکڑا گیا یہ سب بھی الطاف بھائی کے اعصاب پر سوار ہے -6 الطاف بھائی کے بوکھلا جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کراچی میں جاری حالیہ آپریشن کے اب تک جو نتائج سامنے آئیں ہیں اس کے مطابق ایم کیو ایم کے ہزاروں افراد پر نئے مقدمات بن رہے ہیں اور سینکڑوں فرنٹ ورکرزگرفتار ہو چکے ہیںاور اس کے علاوہ ایم کیو ایم میں موجود دھڑے بندی جس میںایک دھڑا ایم کیو ایم مائنس الطاف بھائی آپشن پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے اور ان کے مطابق پارٹی کی نئی لیڈرشپ کے لیے پرویز مشرف کا نام پرپوز کیا جا رہا ہے اور قرین قیاس یہ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو ایم کیو ایم کو پاکستان کی فوجی قیادت کی حمایت بھی حاصل ہو جائے گی جس کے بعد ایم کیو ایم کوقومی دھارے میں شامل کیے جانے کا قویٰ امکان ہے اور مستقبل میں پاکستان کی موجودہ حکومت کے ناکام ہونے کے بعد نئی ایم کیو ایم، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اور پی ایم ایل کیو پر مشتمل قومی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ الطاف بھائی کا موجودہ الگ ملک کا بیان ہی بوکھلاہٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔