بنگلہ دیش کے الیکشن اور عالمی برادری کا عدم اعتماد
بنگلہ دیش الیکشن نتائج امریکہ اور اقوام متحدہ نے مسترد کر دیئے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں بھارت کا اعلان۔ 20 جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ کیا گیا۔ عوامی لیگ نے 232 نشستیں حاصل کیں۔ ٹرن آئوٹ 20فیصد رہا۔ نئے شفاف الیکشن کرائے جائیں، خالدہ ضیاء پہیہ جام ہڑتال جاری۔ اپوزیشن تشدد ترک کر دے تو انتخابات پر غور ہو سکتا ہے۔ حسینہ واجد۔
بنگلہ دیش میں متنازعہ الیکشن اور اسکے بعد پرتشدد ہنگامے، مظاہرے، پہیہ جام ہڑتال اور لوگوں کی ہلاکتوں نے اس جمہوری عمل کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایشیائی ممالک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے اکثر ممالک میں پرامن جمہوری عمل کو بھی تشدد کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے عوامی لیگ کی حکومت پر الیکشن سے قبل ہی دھاندلی کے ذریعے من پسند نتائج کے حوالے سے الزامات لگ رہے تھے۔ ظاہر ہے اس کا سدباب نہ ہوا اور الیکشن کے فوری بعد جس طرح بدترین ہنگامہ خیز حالات پیدا ہوئے اسکی ذمہ دار عوامی لیگ کی حکومت ہی ہے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ بھی ان انتخابی نتائج پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے صرف بھارت نے اپنی من پسند جماعت عوامی لیگ کے زیر اہتمام ہونیوالے ’’جھرلو‘‘ الیکشن کے نتائج کو قبول کیا ہے اب یہ بنگلہ دیشی حکومت اور حسینہ واجد کے سیاسی تدبر کا امتحان ہے کہ وہ غصے میں بپھرے ہوئے عوام کے مطالبہ پر نئے انتخابات کا اعلان کرتی ہیں یا اپوزیشن کے احتجاج کو بزور طاقت کچلنے کی پالیسی اپناتی ہیں۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت کو ہمیشہ مارشل لاء کے خطرے کا سامنا رہا ہے اور ذرا سی بھی بے تدبیری ایک مرتبہ پھر فوجی آمریت کی راہ ہموار کر سکتی ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مل جل کر مذاکرات کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش کریں اسی میں بنگلہ دیشی عوام اور جمہوریت کی بھلائی ہے۔