مشرف کیس اور سعودی وزیر خارجہ کا دورہ
ہسپتال کے حکام نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ خصوصی عدالت میں جمع کرا دی۔ اس پر خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے قرار دیا کہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کیا جائیگا۔
سابق فوجی آمر کو 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی پلس کے نفاذ پر غداری کیس کا سامنا ہے۔ جو آئین کے تحت تشکیل دی گئی خصوصی عدالت میں چل رہا ہے۔ پرویز مشرف پر یکم جنوری کو فرد جرم عائد کی جانی تھی لیکن وہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر عدالت میں حاضر نہ ہوئے۔ 2 جنوری کو بھی یہی جواز پیش کیا گیا۔ عدالت نے ہر صورت پیش ہونے کا حکم دیا تو وہ راستے میں علالت کے باعث فوجی ہسپتال چلے گئے۔ اس کیس کے پراسیکیوٹر شیخ اکرم مشرف کی علالت کو بہانہ قرار دے رہے ہیں۔ میڈیا اور عوام کے کچھ حلقوں میں بھی ایسا ہی تاثر موجود ہے۔ رپورٹ کے تجزیے پر اصل صورتحال سامنے آجائیگی۔ تجزیہ نگار اور سیاسی حلقے ایک رائے قائم کئے بیٹھے تھے کہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل مشرف کی رہائی کیلئے آرہے ہیں اور شاید وہ اپنے جہاز میں مشرف کو سوار کرکے لے جائیں لیکن یہ رائے مفروضوں اور افواہوں پر مبنی ثابت ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف اور شہزادہ سعود الفیصل کی ملاقات میں اس معاملے پر گفتگو نہیں ہوئی۔ سرتاج عزیز کے ساتھ مشترکہ کانفرنس میں سعود الفیصل نے واضح کر دیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘ اس میں مداخلت کر سکتے ہیں نہ کرینگے۔ حکومتی ترجمان بھی متعدد بار وضاحت کر چکے ہیں کہ حکومت پر مشرف کیس کے حوالے سے کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے۔ خصوصی عدالت اپنا کام کر رہی ہے۔ امید ہے کہ حکومت مشرف کیس کے حوالے سے تمام معاملات آئین اور قانون کے مطابق چلنے دے گی اور اندرونی و بیرونی دباؤ کوواقعتاً خاطر میں نہیں لائے گی۔