کیا ریاست اور آئین مقدمہ ہار جائیں گے
مسائل پر بحث کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ اپنے معاملات قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں اور پاکستانی ہونے کی حیثیت میں آئین کو مقدم اور محترم جانیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں ساری بحثیں اسلام اور آئین کے برعکس ہورہی ہیں۔ عدل اور انصاف اور قانون کے سامنے سب کی برابری اسلام کا بنیادی اور سنہری اصول ہے۔قرآن پاک میں مساوی انصاف کا واضح حکم ہے۔ سرور کائنات نے ارشاد فرمایا کہ ان کی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہؓ بھی اگر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ اپنے خلاف ایک مقدمے میں قاضی حضرت زیدؓ کی عدالت میں پیش ہوئے تو قاضی نے امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو پروٹوکول دینا چاہا تو انہوں نے پروٹوکول مسترد کردیا اور فرمایا کہ حضرت زید تب قاضی بن سکتے ہیں جب ان کے نزدیک عمرؓ اور ایک عام مسلمان برابر ہوں۔[کنزالعمال] حضرت عمرؓ اگر عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں تو جنرل پرویز مشرف کیوں پیش نہیں ہوسکتے۔ ان کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ عدالت میں ہے مگر وہ مختلف حیلے بہانے کرکے عدالت میں پیش ہونے سے گریز کررہے ہیں۔ جنرل مشرف کے حواری ان کو بچانے کے لیے اسلام اور آئین کے برعکس مختلف تاویلیں کرکے صاف اور شفاف مقدمے کو آلودہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ جنرل مشرف کے حامی بے مقصد اور بے معنی دلائل اور مطالبات پیش کررہے ہیں تاکہ بغاوت کا مقدمہ قانونی بحثوں میں الجھ کررہ جائے اور حکومت وقت دبائو میں آکر جنرل مشرف کو بیماری کا بہانہ بنا کر پاکستان سے باہر بھیج دے۔
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے درست کہا کہ بلا سارا دودھ پی جاتا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق جنرل مشرف اپنا لندن کا فلیٹ تیس لاکھ پائونڈ یعنی 52 کروڑ روپے میں فروخت کررہے ہیں تاکہ وکلاء کی فیسوں اور میڈیا کے اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ علاوہ ازیں جنرل مشرف کے اربوں کے اثاثے اور بیرونی اکائونٹس منظر عام پر آچکے ہیں جو قانونی اور حلال ذرائع سے نہیں بنائے جاسکتے۔ بلے کے ساتھ کچھ بلیاں بھی تھیں جنہوں نے دودھ پیا۔ وہی بلیاں اپنے محسن بلے کو قانون کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندے جنہوں نے جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدام کے خلاف پرجوش اور سرگرم کردار ادا کیا تھا پر اسرار طور پر خاموش ہیں۔ وکلاء رہنما جو گلے پھاڑ پھاڑ کر جنرل مشرف کو کوستے رہے اب آئین کا دفاع کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ ریاست آئین اور آئین شکن کے درمیان عدالتی جنگ کے دوران مذہبی رہنمائوں کی زبانیں بھی گنگ ہیں۔ وہ قوم کی رہنمائی کا فرض انجام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں حالانکہ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ آمر اور غاصب کا آئینی احتساب ہونا چاہیئے۔ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان اگر مکمل سیاستدان ہوتے تو وہ اپنی جماعت کے بنیادی نعرے ’’انصاف‘‘ کے ساتھ عملی وابستگی کا اظہار کرتے اور ان عناصر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے جو آئین شکن آمر کو عدالتی انصاف سے بچانے کے لیے سازشیں کررہے ہیں۔ کبھی جنرل مشرف کے گھر کے سامنے جعلی بم رکھ دئیے جاتے ہیں اور کبھی دل کی بیماری کے بہانے بنائے جاتے ہیں نیز افواج پاکستان کو ریٹائرڈ جنرل کے گناہوں میں شریک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے آئین اپنی مرضی سے توڑا، ملک پر ایمرجنسی نافذ کی، انسانی تاریخ میں پہلی بار درجنوں ججوں کو گھروں پر نظر بند کیا۔ اس نے پاک فوج کے وقار کو اس حد تک مجروح کردیا کہ اس کے دور میں فوجی آفیسر یونیفارم پہن کر گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ آمر نے کسی اور جرنیل کو آرمی چیف کے منصب کے قابل نہ سمجھا اور طویل عرصہ تک سیاست، حکومت اور فوج کی ٹوپیاں پہنیں رکھیں۔ جنرل مشرف کی سیاست کی وجہ سے فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیت اس حد تک متاثر ہوئی کہ دہشت گرد جی ایچ کیو پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔افواج پاکستان کو اگر کل وقتی آرمی چیف کی سرپرستی میسر ہوتی تو فوج کو مختلف مواقع پر دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔جنرل پرویز کیانی نے دن رات ایک کرکے فوج کے وقار کو بحال کیا۔ پاکستان کے نئے سپہ سالار جنرل راحیل شریف پیشہ ور کھرے اور سچے آفیسر ہیں وہ کبھی ایک ریٹائرڈ جنرل کے ذاتی گناہوں کی خاطر فوج کے وقار کو دائو پر نہیں لگائیں گے۔ آرمی چیف کے ذاتی گناہوں کی ذمے داری فوج کے ادارے پر عائد نہیں ہوتی۔ فوج کو ہر صورت میں ریاست اور آئین کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیئے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ ہرگز فوج کے خلاف مقدمہ نہیں ہے۔جو لوگ آمر کو بچانے کے لیے 12 اکتوبر1999ء سے مقدمے کا مطالبہ کررہے ہیں وہ انتظار کریں عوامی انقلاب کے بعد ان کو انقلابی عدالتوں میں پیش کر کے ان کا کڑا احتساب کیا جائے گا۔
جنرل پرویز مشرف کو جس پر اسرار انداز میں عدالت کی بجائے فوجی ہسپتال لے جایا گیا اس سے جنرل مشرف کے وکلاء بھی حیران ہوئے۔ حکومت اور حکومتی ادارے بھی ششدر رہ گئے۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے کہ ہسپتال کے روٹ پر پہلے ہی رینجرز تعینات تھے تو ڈرامہ طشت ازبام ہوجاتا ہے۔ جو عناصر آمر کو قانون کی گرفت سے بچانے کی کوشش کریں گے وہ خود بھی آزاد عدلیہ کی گرفت میں آجائیں گے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے درست کہا ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کا اصل مدعی پاکستان کی ریاست اور آئین ہیں۔ عدلیہ نے فیصلہ دینا ہے کہ کیا جنرل مشرف نے 3 نومبر کو آئین پامال کرکے ریاست کی توہین کی تھی۔ اس مقدمے سے ثابت ہوگا کہ کیا ہم آئین، قانون اور انصاف کا نظام رکھنے والی مہذب قوم ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ ریاست اور آئین کے وقار کا دفاع کریں اور مقدمہ کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ریاست آئین بنام جنرل مشرف کا مقدمہ عدالت کے سامنے ہے۔ عدلیہ نے ایک وزیراعظم کو پھانسی دی، دوسرے وزیراعظم کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ماضی قریب میں ایک وزیراعظم کو توہین عدالت کے جرم میں فارغ کردیا۔ اب قوم دیکھ رہی ہے کہ عدلیہ آئین توڑنے والے فوجی آمر کو کیا سزا سناتی ہے۔ عدلیہ غیر جانبدار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو دلیر کمانڈو کی طرح مقدمے کا سامنا کرنا چاہیئے اور فوج کو ڈھال نہیں بنانا چاہیئے۔ جب تک معاملہ عدالت میں ہے دنیا کا کوئی ملک آمر کی مدد کو نہیں آئے گا۔
عوام میڈیا کے کردار کے بارے میں بھی چہ مگوئیاں کرنے لگے ہیں ان کا خیال ہے کہ میڈیا جن حکمرانوں پر آئین اور قانون کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کے الزامات لگاتا ہے وقت گزرنے کے بعد ان کو دوبارہ ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔ میڈیا کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور سماج کے بدنام لٹیرے افراد اور آئین شکنوں پر میڈیا کی سکرین بند کرنا ہوگی۔ مجھے ایسی سازشی تھیوری سے اتفاق نہیں ہے کہ جنرل پرویز مشرف قانون کی گرفت سے بچ جائیں گے۔ منتخب حکومت آئین کی پاسداری کرے گی۔ عدلیہ کسی دبائو میں نہیں آئے گی۔ پاکستان کے عوام افواج پاکستان اور حکومت فرد واحد کی بجائے پاکستان کی ریاست اور آئین کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور ریاست یہ مقدمہ جیت جائیگی۔ جنرل مشرف کو آئین توڑنے کی سزا ملے گی اور آئندہ کوئی آرمی چیف آئین توڑنے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ آرمی چیف کی مرضی نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت مارشل لا نافذ نہیںکرسکتی۔ آئین آرمی چیفس کی ذاتی مرضی اور منشا سے ہی ٹوٹتے رہے ہیں لہذا بنیادی ذمے داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ بیماری کی جڑ کو پکڑیں گے تو بیماری ٹھیک ہوگی۔