بجلی، گیس کا بحران اور قرضوں کے انبار
لاہور اور پنجاب سمیت ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں کو بجلی اور گیس کے بحران نے ایک بار پھر اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ بجلی نہیں ہوتی تو نلوں سے پانی بھی غائب ہو جاتا ہے۔ بجلی، گیس اور پانی کا شمار بنیادی انسانی ضروریات میں ہوتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہروں اور دیہات میں 16 سے 18 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ جاری ہے جبکہ گیس کی فراہمی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ہر جانب اندھیروں کا راج ہے۔ طالب علموں کی تعلیم شدید متاثر ہو رہی ہے۔ دکانیں اور فیکٹریاں غرض ہر قسم کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے جس سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث گھروں کے چولہے بھی بجھ چکے ہیں۔ کوئلے اور لکڑی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ زرداری دور کی بلائیں پھر نازل ہو گئی ہیں۔ وہی بے ڈھنگی چال اب بھی جاری ہے۔ زرداری حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف حکومت برسر اقتدار آئی تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ انہوں نے کہا کہ چور، اچکوں اور ٹھگوں سے ہماری جان چھوٹ گئی ہے۔ اب ہر جانب اچھا ہی اچھا ہو گا۔ مگر نئی حکومت کے آنے کے 7 ماہ بعد بھی عوام کو قطعی کوئی ریلیف نہیں ملا بلکہ ان کے دکھوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ عام آدمی کی تنخواہ اور آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ سردیوں کے آغاز میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے خوشخبری سنائی تھی کہ پنجاب کے گھریلو صارفین کو بلاتعطل گیس کی فراہمی کی جائے گی مگر ان کا دعویٰ الٹا ثابت ہوا۔ اس وقت لوگوں کو بارہ بارہ گھنٹے تک گیس میسر نہیں آتی اور بعض علاقوں میں تو گیس کے نہ آنے کا دورانیہ 20 گھنٹوں سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کے بحران کو بام عروج تک پہنچانے میں زرداری حکومت نے مرکزی ادا کیا ہے۔ اب یہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ پنجاب اور وفاقی حکومت اس بحران کے حل کے لئے کافی ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے بجلی بحران کو دور کرنے کے لئے برسر اقتدار آتے ہی 500 ارب روپے کے گردشی قرضے ختم کئے جس کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں تھوڑے عرصہ کے لئے کمی آئی اس کے بعد اب صورتحال پھر بدترین ہو چکی ہے۔ زرداری کے عہد میں پنجاب کے خادم اعلیٰ نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف 7 کلب روڈ سے اپنا آفس مینار پاکستان کی وسیع گرائونڈ میں تمبو اور شامیانوں میں منتقل کر دیا تھا اور وہاں سخت گرمی میں پسینے میں نہائے ہوئے اپنے ہاتھوں سے دستی پنکھا جھیلا کرتے نظر آتے تھے۔ اب وہ دوبارہ عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لئے کسی شام سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں کسی کھلے میدان میں ’’لکڑیوں کا مچ‘‘ لگائیں کہ یہی ایک رول ماڈل حکمرانوں کا شیوہ ہوتا ہے اور وہ عوام کے رنگوں میں رنگا ہوتا ہے۔ توانائی کا بحران ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت گیس پر چلنے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کرے۔حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ہرممکن کوشش کرے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ 1999ء میں پاکستان کے ذمے 2 ہزار 946 ارب روپے قرضہ تھا جو 2013ء میں 15 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اب موجودہ حکومت ریلوے کی بحالی کے لئے مزید قرضہ لے رہی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ قرضوں کا پہاڑ مزید بلند ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت مزید دبائو میں آئے گی۔ حکومت غیر ملکی قرضے لے کر ملکی معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے انکم ٹیکس وصولی، بجلی چوری کے انسداد اور اسکے بلوں کی ریکوری کا نظام بہتر بنائے اور سرکاری اداروں میں کرپشن کی روک تھام کرے تو اسے غیر ملکی قرضے لینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بااثر سیاستدان، بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے ٹیکس ادا نہیں کرتے، اسی طرح سرمایہ دار سرکاری اہلکاروں کی آشیرباد سے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ملک کے متعدد علاقوں میں اسلحے کے زور پر بجلی کے بل ادا نہ کرنے اور اس کی چوری کی روایت بھی بہت عام ہے۔ سرکاری اداروں میں ہر سال کھربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں گھپلے ہوتے ہیں مگر آج تک کسی بڑے ذمے دار کا احتساب نہیں کیا گیا۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت مزید قرضوں کے بوجھ سے نجات کے لئے ملکی انفراسٹرکچر بہتر بنائے ورنہ یہ بوجھ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور ہم کبھی اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔
آج 7 جنوری رات 10 بجے جب میں یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل سعودی عرب کی قیادت کا ایک اہم پیغام لے کر پاکستان آئے تھے۔ انکی وزیراعظم نواز شریف‘ صدر مسنون حسین اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقاتیں خوشگوار رہیں۔ اس سے پاک سعودی عرب تعلقات مضبوط ہونگے اور پاکستان کی معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ پرویز مشرف کو ساتھ لے جانے کی افواہوں کا طوفان برپا تھا‘ جو شہزادے کے اس بیان سے دم توڑ گیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس میں مداخلت نہیں کر سکتے!