بلدیاتی انتخابات : پنجاب 13 مارچ ‘ سندھ 23 فروری : الیکشن کمشن ‘ زیادہ التوا نہیں ہونے دیں گے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ نیشن رپورٹ) سپریم کورٹ نے حد بندیاں کالعدم قرار دینے کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی سندھ حکومت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عبوری ریلیف دینے سے انکار کر دیا ہے اور کیس کی سماعت 27 جنوری تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سندھ حکومت اور ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کر لیں۔ دوسری جانب الیکشن کمشن نے سندھ میں 18 جنوری اور پنجاب میں 30 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت کرلی ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد نے سپریم کورٹ میں بیان دیتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا نیا شیڈول جمع کرایا۔ الیکشن کمشن نے کہا کہ وہ سندھ میں 23 فروری اور پنجاب میں 13 مارچ کو بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے تیار ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخاب سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ پرنٹنگ پریس نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے مزید تین ہفتے کی مہلت طلب کی ہے۔ اگر سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل بھی کردے تو بھی 18 جنوری کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات ممکن نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید نے کہا کہ سندھ پہلا صوبہ ہے جس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ لوکل باڈیز ایکٹ سپریم کورٹ کے دبا¶ پر جلد بازی میں تیار کیا گیا، جس میں کوتاہی ہوسکتی ہے، اسلئے عدالت حد بندیوں سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل قرار دے۔ ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کی معطلی سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہونگیں۔ عدالت نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستوں کی سماعت 27 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق تمام درخواستوں کو اکٹھا سنا جائیگا جبکہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت پیر کو ہوگی۔ عدالت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیگر درخواستیں بھی سماعت کیلئے منظور کر لیں۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت تک تاخیر کا شکار نہیں ہونے چاہئےں، عدالت جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی نہیں کئے جا سکتے، بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمشن اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں زیادہ التوا نہیں ہونے دیں گے۔ عدالت معاملے کو تفصیل سے سن کر فیصلے کرے گی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ لوکل باڈیز ایکٹ جلد بازی میں تیار کیا گیا ایکٹ میں غلطیاں اور کوتاہیاں ہو سکتی ہیں۔ عدالت کا دباﺅ تھا جس کی وجہ سے ایکٹ جلد بازی میں تیار کیا گیا۔ اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے پوچھا کہ آپ پر عدالت کا دباﺅ تھا اور کوئی آئینی ذمہ داری نہیں تھی اس پر خالد جاوید نے کہا کہ ہم پر آئین کا دبا¶ تھا اور آئینی ذمہ داری بھی ہے، 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مشکل ہے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ بلدیاتی قانون میں شہری آبادیوں کی صحیح تشریح نہیں۔ خالد جاوید نے کہا کہ نئے قانون میں دیہی علاقوں کو شہری علاقوں میں تبدیل کیا گیا۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے سندھ حکومت نے ہوم ورک مکمل کر لیا تھا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بلدیاتی انتخابات پر ہوم ورک مکمل کر لیا تھا تو پھر آج دبا¶ میں نہ ہوتے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ خانہ شماری کے بلاکس کو بنیاد بنا کر نئی حلقہ بندی کی گئی۔ ملیر کے دیہی علاقہ کو شہری علاقہ میں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ ان کے پاس شہری علاقوں کی کیا تعریف ہے اس پر خالد جاوید نے کہا کہ جو علاقے دیہی نہیں ہوتے وہ شہری ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ پھر تو سمندر اور دریا سب کچھ شہری علاقوں میں آ تے ہیں۔ خالد جاوید نے کہا کہ قانون ہے کہ مردم شماری سے پہلے خانہ شماری ہوتی ہے الیکشن کمشن نے ووٹرز فہرستیں نئی مردم شماری پر بنوائیں۔ مردم شماری 1998ءاور خانہ شماری 2011ءمیں کرائی گئی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت تک تاخیر کا شکار نہیں ہونے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ جلد بلدیاتی انتخابات ہوں، سندھ حکومت کی اپیل تفصیل سے سنیں گے مگر زیادہ لمبی تاریخ نہیں دیں گے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے م¶قف اختیار کیا کہ اگر سندھ اور پنجاب میں ہائی کورٹس کے فیصلوں کے مطابق حلقہ بندیاں کی گئیں تو پھر شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے تین ہفتے درکار ہیں سندھ میں 23 فروری اور پنجاب میں 13 مارچ کو انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے باعث حکومت 18 جنوری کو انتخابات نہیں کرا سکتی عدالت انتخابی عمل نہ روکے بلکہ سندھ ہائی کورٹ کے حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل نہیں کیا گیا تمام معاملات 27 جنوری کو سنے جائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق الیکشن کمشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے حلقہ بندیوں اور بلدیاتی ایکٹ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد مقررہ تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے، بلدیاتی انتخابات کیلئے مقناطیسی سیاہی بھی تیار نہیں کی گئی۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے 3 ہفتے اور تقسیم کیلئے ایک ہفتے کا وقت درکار ہے۔ پنجاب میں 30 جنوری کے بجائے 13 مارچ کو بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں جبکہ سندھ میں 18 جنوری کے بجائے 23 فروری کو بلدیاتی انتخابات ممکن ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیں تو کیا الیکشن ہو سکتے ہیں جس پر سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا کہ فیصلہ معطل ہونے پر بھی الیکشن نہیں کرا سکتے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے م¶قف اختیار کیا کہ عدالت انتخابی عمل نہ روکے، سندھ ہائیکورٹ کی نئی حلقہ بندیوں پر فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، ہائیکورٹ نے نئی حلقہ بندیوں کیلئے کمشن بنانے کے احکامات دیئے ہیں۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کے باعث حکومت 18 جنوری کو الیکشن نہیں کرا سکتی۔ الیکشن کمشن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں پر لاہور اور سندھ ہائیکورٹس فیصلے جاری کر چکی ہیں۔ حلقہ بندیاں تبدیل کی گئیں تو شیڈول کے مطابق الیکشن کمشن الیکشن کیسے کرا سکتا ہے؟ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ایم کیو ایم کے فروغ نسیم ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ اس کیس میں فریق ہیں، آرٹیکل 140 اے کے حوالے سے بھی آپ آگاہ ہیں، ہم چاہتے ہیں بلدیاتی الیکشن ضرور ہوں، ہم نہیں جانتے سندھ میں کتنے حلقے ہیں، شفاف الیکشن کیلئے سکروٹنی کا عمل انتہائی ضروری ہے، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے چیئرمین جلال الدین نے کہا کہ آزاد امیدوار کیلئے پینل کی شرط ختم کی جائے۔ جس پر فاضل بنچ کے رکن جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اچھی بات ہے سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور ایم کیو ایم ایک نقطے پر متفق ہیں۔ متحدہ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایک سیاسی جماعت سے متعلقہ ہیں ہم نے الیکشن کمیشن کا نوٹ دیکھ لیا ہے آپ کے 148A کے مینڈیٹ کے حوالے سے تحفظات ہیں، حکومت نے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت انہیں ہدایت جاری کرے ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ انتخابات کرانے دینگے، انتخابات شفاف ہوں گے ہم آپ کے ایشوز کا بھی جائزہ لینگے، انتخابی عمل متاثر یا تاخیر کا سبب نہیں بنے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری ریلیف کو چھوڑیں الیکشن کا کیا ہو گا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سکروٹنی کا عمل ابھی ہونا ہے، سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ درست ہے اور جو ہدایات دی گئی ہیں اس پر عمل کیا جائے۔ پیر کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آرہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی اس کو تفصیل کے ساتھ نہیں سن رہے ابھی ابتدائی سماعت ہے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اگر پینل سسٹم ختم کیا گیا تو معاملہ نئے سرے سے شروع کرنا ہو گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایم کیو ایم اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی قانونی معاملات پر اکٹھے ہیں، مل کر عدالت آتے ہیں، یہ ہمیں پتہ چل گیا۔ فنشکنل مسلم لیگ کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے کراچی رجسٹری میں درخواست دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وکیل ہیں، زبانی بات نہ کریں درخواست سامنے ہو گی تو کو سن لیں گے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے دلائل سنے ہیں، فروغ نسیم کو بھی سن لیا، اکرم شیخ، سیکرٹری الیکشن کمشن سمیت دیگر فریقین کو سن لیا ہے جو ایشو کے حوالے سے کافی بے تاب ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف جو اپیل دائر کی ہے وہ قبول کی جاتی ہے جس میں ہائی کورٹ نے ان کیخلاف فیصلہ دیا تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ قوانین میں سقم ہے‘ اسے درست کرنا چاہتے ہیں۔ حد بندیاں بھی اس قانون کے تحت کی گئی تھیں۔ صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قوانین مرتب کئے ہیں، اس حوالے سے الیکشن کمشن سے مشاورت بھی کی ہے۔ یہ تمام معاملات 27 جنوری کو سنے جائیں گے۔
بلدیاتی انتخابات / سپریم کورٹ