مشرف کے پاس عدالتی فیصلہ سپریم کورٹ چیلنج کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں: سعید الزمان صدیقی
اسلام آباد (ثناء نیوز) آئینی ماہرین نے خصوصی عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پر فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مشرف کی میڈیکل رپورٹ میں کوئی ایسی بیماری درج نہیںجو عدالت میں پیش ہونے میں رکاوٹ ہو۔ ماہرین نے قرار دیا خصوصی عدالت کے پاس وسیع اختیارات ہیں وہ ملزم کی عدالت میں پیشی کے لئے کوئی بھی اقدام کر سکتی ہے مشرف اسی صورت میں عدالت میں پیشی سے بچ سکتے ہیں کہ فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں عدالت مشرف کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سعید الزمان صدیقی، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان اور سلمان اکرم راجہ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا، چیف جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی کا کہنا تھا پرویز مشرف کے پاس اب کوئی چارہ کارنہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں اس کے علاوہ کوئی طریقہ کار نہیں۔ کیس میں ضابطہ فوجداری کے بارے میں بھی عدالت فیصلہ کرے گی اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ فوجداری قانون اس کیس میں لاگو ہوتے ہیں تو پھر عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ مشرف کے پیش نہ ہونے پر گرفتاری کا حکم جاری اور اگر عدالت فوجداری قانون لاگو نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو پھر بھی عدالت کے پاس اختیارات موجود ہیںکہ وہ ملزم کو پیش ہونے پر مجبور کرے عدالت کے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں، وہ کوئی بھی طریقہ اختیار کرسکتی ہے، وکلاء اعتراضات اٹھاتے ہیں یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ اعتراضات کا جواب دے۔ یہ درست فیصلہ ہے مشرف کو جو بیماریاں بتائی گئی ہیں ان میں کوئی بھی بیماری ایسی نہیں جو ان کو عدالت آنے سے روکتی ہو یہ سب بیماریاں عمر کے ساتھ ہوتی ہیں 70 سال کے شخص کو یہ بیماریاں نارمل ہیں عدالت نے مناسب حکم جاری کیا اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ سپریم کورٹ جاسکتا ہے اور سٹے آرڈر لے سکتا ہے مشرف کے وکلا کو ایک ہی آپشن ہے کہ اس آرڈر کو ختم کرائیں یہ آرڈر صرف سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ جو حکم جاری کرے گی وہ سب پر لاگو ہوگا۔ ایسی نوعیت کا یہ پہلا مقدمہ ہے اس میں عدالت کو بہت سے پیرا میٹرز سیٹ کرنا ہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا فوجداری قانون اس کیس پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ 1976ء کے قانون میں واضح لکھا ہے کہ اس کیس میں فوجداری قانون نافذ ہوگا یہ کس حد تک لاگو ہو سکتا ہے اسکا فیصلہ عدالت کا کام ہے، خصوصی عدالت کے وسیع اختیارات ہیں، عدالت اس نیتجہ پر پہنچتی ہے کہ ملزم جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہو رہا تو عدالت گرفتاری کے حکم سمیت کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتی ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے کہا کہ یہ خصوصی عدالت نے ہی فیصلہ کرنا تھا کہ مشرف کو کب پیش ہونا ہے عدالت نے چھ سات روز مشرف کو دے دئیے۔ عدالت نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔ کیس میں سپیشل پروسیجر نافذ ہوگا، جہاں کمی ہوئی وہاں فوجداری قانون نافذ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس آج بھی اختیار ہے کہ وہ ملزم کو کسی بھی ذریعہ سے پیش ہونے پر مجبور کر سکتی ہے، میڈیکل رپورٹ کو سامنے رکھ کر کچھ دن کی سہولت دی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق مشرف کو معمولی عارضہ ہے اگر زندگی کو خطرہ ہو تو پرویز مشرف کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے اگر مشرف پیش نہ ہوئے تو عدالت ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتی ہے۔