معاشی ارتقا اور عسکری قوت
سن1965-66ء میں جب میں بی اے کا طالب علم تھا تو ہمارے معاشیات کے پروفیسرز یہ بتاتے تھے کہ معیشت کی اصل روح درحقیقت کسی بھی ملک کی مجموعی پیداوار ہوتی ہے۔ اس لئے کسی بھی ملک کی مالی حالت کو پرکھنے کیلئے آج بھی ماہرین معاشیات یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کی جی ڈی پی کیا ہے اور اس پیداوار پر تکیہ کرنے والے اس ملک کے کتنے باسی ہیں اور ہر فرد کے حصے میں پیداوار کا کیا تناسب آتا ہے۔ بات صرف پیداوار پر نہیں ختم ہوتی ،پھر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ خام پیداوار کی ویلیو ایڈیشن کیلئے ہمارے پاس صنعت کس معیار کی ہے۔ مثلاً گندم، چاول، کاٹن، چمڑا، پولٹری، حیوانات کی افزائش، فروٹ، زیر زمین گیس، تیل، کاپر، سونا سنگ مرمر، خام لوہا اور کوئلہ جیسی بے شمار حیزیں ملکی پیداوار کے کھاتے میں آتی ہیں لیکن جب ہم کاٹن سے کپڑا اور کپڑے سے مختلف ملبوسات بنا کر برآمد کرتے ہیں تو اس کی قیمت کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔ چمڑے اور لکڑی سے کھیلوں کا سامان تیار ہوتا ہے۔ سیالکوٹ میں بننے والے فٹ بال جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک اپنی مہریں لگا کر پاکستان سے درآمد کرتے ہیں تو پاکستان کو زرمبادلہ ملتا ہے جو پاکستانی معیشت کو مضبوظ کرتا ہے۔ امریکی سابق صدر بل کلنٹن سے جب کسی نے پوچھا کہ کیا ایٹم بم، میزائل، ایٹمی آبدوزیں، فائٹر اور بمبار جہاز ایک ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں تو اس کا جواب تھا ’’اِٹ اِز اکانومی سٹوپِڈ‘‘ یعنی بھلے انسان ملکی طاقت کا اصل پیمانہ معیشت ہے۔
پاکستانی معیشت نے پچھلے 66 سال میں بہت اُتار چڑھائو دیکھے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر اُتار ہی تھے۔ صحیح معنوں میں وہ چڑھائو دیکھنے میں نہیں ملا جس کا پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت، معدنی وسائل، افرادی قوت، زرخیز دھرتی، سیاحت کے فروغ کیلئے فلک بوس چوٹیوں اور سمندری حیات کے انمول خزانوں سے مالا مال ہزار میل لمبے ساحلِ سمندر کی وجہ سے حقدار تھا۔ بڑی وجوہات نااہل اور کرپٹ قیادت اور آبادی میں بے پناہ اضافہ تھیں۔ ایوب خان کے دور میں معیشت کچھ سنبھلی لیکن کمزور سیاسی اداروں کی وجہ سے ہم نے آدھا ملک ہی گنوا دیا۔ بہرحال ایوب خان کے دور میں بننے والے تربیلا اور منگلا ڈیم قوم پر ایک بہت بڑا احسان تھا۔ ہم اس وقت کے سیاستدانوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے مارشل لا کے ڈر سے ہی سہی، ڈیموں کی تعمیر کو اپنی سایسی دکانیں چمکانے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جسے آج کے دور میں کالا باغ ڈیم جیسے ایک خالصتاً تکنیکی اور معاشی پراجیکٹ کو صرف چند گنے چنے افراد نہایت بے رحمی سے اپنے سیاسی ایجنڈے کیلئے تنقید کا نشانہ بنا کر ملک سے وفاداری کا حق ادا نہیں کر رہے۔ موجودہ بدترین انرجی بحران پیدا کرنے کے گھنائونے جرم میں وہ لوگ برابر کے شریک ہیں جنہوں نے ڈیم بنانے کا نہیں سوچا یا ڈیم بننے کی مخالفت کی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بغیر سوچے سمجھے بہت سارے ادارے قومیا لئے جو سفید ہاتھی بن گئے، بعد میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے آنکھیں بند کر کے ایسی نجکاری کی کہ پرانی پنجابی کی کہاوت کی یاد آنے لگی کہ ’’چوراں دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز‘‘ یعنی حبیب بنک سمیت کچھ ادارے ایسے بکے جس پر کچھ لوگ کہنے لگے ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ ۔ جنرل پرویز مشرف کے پہلے تین سال میں معیشت میں کچھ عارضی ٹھہراؤ ضرور دیکھنے میں آیا، وجہ یہ نہیں تھی کہ پیداوار میں اضافہ ہو گیا تھا یا بہت زیادہ صنعتی ترقی شروع ہو گئی تھی ۔یہ خوشحالی زیادہ تر سروسز کی کی وجہ سے تھی اور اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز سے جب یہ پوچھا جاتا تھا کہ معاشی اِنڈیکیٹر تو اچھے ہیں لیکن لوگ تو بدحال ہیں تو وہ کہتے تھے کہ ٹریکل ڈائون اثرات کا عوام انتظار کریں جو اُن کے دور میں تو نہ آ سکے لیکن بعد میں انرجی بحران اور معاشی بدحالی کی صورت میں جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئے۔ جنرل مشرف دور کی خوشحالی کی اصل وجہ کافی حد تک میرٹ اور پھر 9/11 کی جنگ تھی جس کی وجہ سے پیرس کلب اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان کے تقریباً سارے بیرونی قرضے دس سال کیلئے ملتوی کر دئیے۔ اس طرح ڈیٹ فنانسنگ یا سود کی ادائیگی پر جانے والے اربوں روپے حکومت کے ہاتھوں میں آ گئے جو ضلعی اور یونین کونسل کے ناظموں کو ملے، انہوں نے سو روپے میں سے صرف 40 روپے فلاحی کاموں پر لگائے اور باقی رقوم زیادہ تر ناظمین نے اپنی جیبوں میں ڈالیں جس کا نہ کوئی آڈٹ ہُوا اور نہ کسی بھی ضلع میں محتسب تھا جو حساب لیتا۔ آج بھی اس وقت کے ناظمین کے منتخب ہونے سے پہلے اور نظامت سے ہٹنے کے بعد کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو فرق صاف نظر آئے گا۔ بلدیاتی نظام میں جتنی بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی اس ریکارڈ کو صرف بعد میں آنے والے سیاسی اتحاد نے پانچ سال میں توڑا جن کا سوچا سمجھا نعرہ تھا ’’ڈیمو کریسی اِز دی بیسٹ ری وینج‘‘ اس اتحاد نے سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے اداروں کو کنگال کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
اب موجودہ حکومت تنکے چُن کر دوبارہ آشیانہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس مخلصانہ سعی کے اہم اہداف بقول وزیر خزانہ اسحاق ڈار -1 پاکستان کی کل سالانہ پیداوار (جی ڈی پی) میں 3 فیصدی سالانہ اضافے کو 2016ء تک 6.7 فیصدی اضافے تک لے جانا -2 جی ڈی پی کی نسبت سے سرمایہ کاری کی موجودہ 12.6 فیصدی کی شرح کو بڑھا کر 20 فیصدی تک لے جانا -3 ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب میں بھی 8.5 فیصدی سے 13 فیصدی تک اضافہ کرنا -4 خسارے کی موجودہ شرح کو 8.8 فیصدی سے گھٹا کر 4 فیصدی تک لے جانا -5 زرمبادلہ کے ذخائر کو 3 ارب ڈالرز سے بڑھا کر 20 ارب ڈالرز تک لے جانا -6 قرضوں کی شرح کو گھٹا کر جی ڈی پی کے 60 فیصدی سے ہر حالت میں کم رکھنا۔ اس سلسلے میں دی گئی وزیر خزانہ کی پریس بریفنگ کو معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر فرح سلیم نے پاکستانی تاریخ میں منفرد اور قابل تحسین کہا۔
یہ سچی بات ہے کہ گھمبیر معاشی مسائل حل کرنے میں بہت سا وقت تو لگے گا لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کی ان مسائل کو حل کرنے کی سرتوڑ مخلصانہ کوششوں پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا اور موجودہ حکومت نے اگر پاکستان کی تاریخ میں اپنا کوئی مقام بنانا ہے تو اسے پاکستان کو اسی معاشی مشکل سے نکالنا ہو گا۔ پاکستان کے سابقہ گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر محمد یعقوب نے اس سلسلے میں بہت کارآمد مشورے دئیے ہیں جن پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے مثلاً یہ کہ اگر پرائیویٹ شعبے نے ملک میں سرمایہ کاری کرنی ہے تو اندرونی اور بیرونی بچت میں اضافہ کرنا ہو گا۔ بجٹ خسارے کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانا اور زراعت پر ٹیکس لگانا بھی ضروری ہے۔ پوشیدہ معیشت کو سامنے لا کر ملکی سرکاری معیشت سے جوڑنا ملکی مفاد میں ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں کی رگوں سے لگاتار رستے خون پر مرہم پٹی رکھنا بھی ضروری ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے بجائے اپنی پیداوار، برآمدات اور بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے زرمبادلہ کی ترسیل کو بڑھانا پڑے گا ۔اس کے علاوہ اگر ہو سکے تو بیرونی قرضوں کی واجب الادا قسطوں کو ملتوی کروایا جائے اور دوسرا سفارتی سطح پر یہ کوشش کرنا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے پاکستان کے تقریباً 80 ارب ڈالرز کے نقصان میں سے کچھ رقم اقوام متحدہ واپس کروائے یا کم از کم بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہمارے پچھلے دس سالوں کے بیرونی قرضوں کی تنسیخ کے احکامات صادر کریں۔ ماضی میں ایسے ہوتا رہا جس کا مصر جیسے ممالک نے فائدہ اٹھایا۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ معاشی آسودگی ہی بہترین عسکری قوت کی بنیاد بنتی ہے۔