پرویز مشرف غداری کیس: ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے ‘ وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتے ہیں : خصوصی عدالت
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیٹ نیوز + نوائے وقت نیوز) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ کی سماعت میں خصوصی عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس کیس پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے عدالت جلد بازی کے بجائے تمام کارروائی محتاط انداز میں آگے بڑھا رہی ہے، عدالت نے پرویز مشرف کو عدالت میں پیشی سے متعلق 9 جنوری کے عدالتی حکم پر حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دائر درخواست خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ملزم ہر پیشی پر عدالت میں حاضر نہ ہو لیکن پہلی مرتبہ عدالت میں ان کی حاضری ضروری ہے، بعدازاں بے شک ان کا کوئی وکیل پیش ہوتا رہے۔ عدالت نے پرویز مشرف کو 16 جنورری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ پیش نہ ہوئے تو عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے کیس کی سماعت شروع کی تو خصوصی عدالت کے سربراہ فیصل عرب نے 9 جنوری کے عدالتی احکامات کی مس رپورٹنگ کے حوالے سے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کیس کے متعلق عدالتی احکامات کی مس رپورٹنگ کی جو نہیں ہونی چاہئے۔ جس پر وکیل صفائی انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ ہم پہلے ہی یہ معاملہ عدالت کے علم میں لا چکے ہیں خاص کر میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے جو ایک خفیہ دستاویز تھی لیکن وہ میڈیا کے سامنے آ گئی ان کا کہنا تھا کہ مجھے میڈیکل رپورٹ کی کاپی ایک ٹی وی چینل کے نمائندے سے ملی جو عجیب بات ہے۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے تجویز دی کہ پی آر او کے توسط سے سپریم کورٹ کی طرح یہاں بھی تحریری آرڈر جاری کیا جانا چاہئے جس سے معاملہ حل ہونے میں مدد ملے گی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ وکلائے صفائی الزام لگا رہے ہیں کہ میڈیکل رپورٹ پراسیکیوٹر کے دفتر سے مبینہ طور پر جاری ہوئی۔ حقیقیت یہ ہے کہ مجھے رپورٹ ملنے سے قبل میڈیکل رپورٹ میں نے ایک گھنٹہ 28 منٹ قبل پی ٹی وی پر پڑھی تھی۔ وکیل صفائی انور منصور نے کہا کہ مجھے بہت سارے ٹی وی ٹاک شوز میں بلایا گیا لیکن میں اس لئے نہیں گیا کہ میں خصوصی عدالت میں اس کیس کی پیروی کر رہا ہوں، اسی چیز کو میڈیا ٹرائلز کہا جاتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا دونوں جانب سے کسی کو میڈیا پر پیش نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ ہے جس کو دنوں یا ہفتوں میں نہیں سنا جا سکتا۔ فریقین تجاویز دیں تو عدالت اس کے بارے میں موزوں احکامات جاری کرے گی۔ انور منصور نے عدالت سے کہا کہ وہ 9 جنوری کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں جو ملزم کو پیش کرنے کے حوالہ سے دیا گیا، ہم اس آرڈر پر حکم امتناعی لینا چاہتے ہیں اگر اس کے باوجود عدالت ملزم کو پیش ہونے کا آرڈر جاری کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم اپنی ہی درخواستوں کی نفی کر رہے ہیں، ہم بار بار واضح کر چکے ہیں کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے جاری 20 جولائی 2013ءکا حکومتی نوٹیفکیشن کوئی حیثیت نہیں رکھتا، وہ قواعد و ضوابط کے خلاف جاری ہوا۔ یہ وزیراعظم اور چیف جسٹس نے جاری کیا، صدر سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ نوٹیفکیشن درست جاری ہوا، مشرف پیشی سے بچنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں، مجھے بھی کافی بیماریاں ہیں، کیس کی اہمیت کے پیش نظر ہرنیا کا آپریشن ملتوی کرایا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا یہ فوجداری ایشو ہے ہم تمام کارروائی محتاط انداز میں چلا رہے ہیں جب آپ نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر استثنیٰ مانگا تو ہم نے دے دیا لیکن آپ نے صحت کی خرابی کی بنیاد پر تحریری استثنیٰ کی درخواست نہیں دی۔ عدالت خود بھی نہیں چاہتی کہ ملزم ہر پیشی میں عدالت میں حاضر ہوں لیکن پہلی مرتبہ ملزم کا عدالت میں آنا ضروری ہے اس کے بعد چاہے تو کوئی وکیل ان کی جانب سے پیش ہو۔ عدالت نے مزید کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس عدالت کا دائرہ کار محدود ہے لیکن خصوصی عدالت کے دائرہ کار کے بارے میں فیصلہ یہی عدالت ہی کرے گی۔ انور منصور نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا قیام ہی غیر قانونی ہے اس لئے سب سے پہلے اس معاملے کو حل کرنا چاہئے، آرٹیکل 90 کے تحت نوٹیفکیشن درست انداز میں جاری نہیں ہوا، نوٹیفکیشن میں کسی بھی جگہ صدر کا ذکر نہیں جو غیر قانونی ہے بلکہ اس میں لکھا ہے کہ وزیراعظم نے چیف جسٹس کی مشاورت سے سپیشل کورٹ قائم کرنے کی ہدایت کی جس کا مطبب یہ ہے کہ یہ عدالت پہلے روز سے ہی غیر قانونی ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی شق 309 خصوصی عدالت اپنا فیصلہ یا اپنے آرڈر کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتی تاہم جو حتمی فیصلہ ہو گا اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، اگر ڈیفنس 9 جنوری کے آرڈر پر سٹے لینا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں اس کا تو یہ مطلب ہو گا کہ جو بھی ان کی درخواست ........ سے مسترد ہو تو وہ ہر بار سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ فیصلہ ساڑھے گیارہ بجے رجسٹرار سنائیں گے۔ بعدازاں رجسٹرار نے عدالت کا تحریری حکم سناتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔ خصوصی عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ غداری کے اس مقدمہ پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے۔ عدالت کو ملزم کا ٹرائل کرنے، اس کی گرفتاری اور ضمانت سے متعلق اختیارات بھی حاصل ہیں۔ آرٹیکل 6 کے تحت آنے والے اس مقدمے میں جہاں ضرورت پڑے گی وہاں ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہو گا۔ خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے مختصر فیصلہ س±ناتے ہوئے کہا کہ عدالت کو اپنے ہی فیصلے پر نظرثانی کرنے کا اختیار نہیں۔ 9 جنوری کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کو 16 جنوری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ پہلے عدالت ان تین درخواستوں سے متعلق فیصلہ دے جو عدالت کی تشکیل اس کے دائرہ سماعت اور چیف پراسیکیوٹر کی تعیناتی سے متعلق دائر کی گئی ہیں۔ ان درخواستوں میں اگر عدالت میں ان کے م¶قف کو تسلیم کر لیا تو پھر عدالت کے 9 جنوری کے فیصلے کی کیا قانونی حیثیت ہو گی۔ چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے کو خود ہی واپس نہیں لے سکتی۔ کسی بھی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اسی صورت میں جب کسی مقدمے سے متعلق ماتحت عدالت کوئی حتمی فیصلہ دے دے لیکن اس مقدمے میں ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ خصوصی عدالت کے سربراہ فیصل عرب نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ کیا اس مقدمے میں ضمانت کی کوئی گنجائش ہے یا اس پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے جس پر چیف پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ قانون میں ملزم کے وارنٹ جاری کرنے اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہ کار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع کیا گیا ہے۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ غداری کا مقدمہ بھی ضابطہ فوجداری کے تحت ہی آتا ہے۔ 1975ءکے ایکٹ کے تحت ہی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں عمل میں لائی گئی ہیں، غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے کے لئے تشکیل دی جانے والی عدالت کا ایکٹ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ عدالت نے کیس میں ضابطہ¿ فوجداری کے اطلاق سے متعلق پرویز مشرف کے وکلا کے دلائل مسترد کردیئے اور پرویز مشرف کی 16 جنوری کو طلبی کے فیصلے کیخلاف حکم امتناعی کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ خصوصی عدالت کے قانون میں کوئی سقم نہیں، عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر سکے گی اور وہ ملزم کی ضمانت بھی لے سکتی ہے۔ ملزم عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہوا تو وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں گے۔ ضابطہ فوجداری کے اطلاق سے متعلق فیصلہ دو روز قبل محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ کیس میں جہاں کہیں خصوصی قانون خاموش ہو گا وہاں ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہو گا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ قانون میں سقم نہیں، خصوصی عدالت نے ضابطہ فوجداری کے اطلاق سے انکار نہیں کیا اگر یہ عدالت ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں کرتی تو پھر اس کیس کی کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی، خصوصی عدالت کو بند کر دینا چاہئے یہی وہ گھڑی ہے جس پر خصوصی عدالت آگے بڑھے گی۔ ہائی ٹریزن ایکٹ میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ضرورت پڑنے پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس معاملہ پر پرویز مشرف کے وکلا انور منصور خان اور شریف الدین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ غداری کیس میں ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا، عدالت پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کر سکتی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے 16 جنوری کو پرویز مشرف کو طلب کر رکھا ہے۔ عدالت کے پاس اختیار نہیں کہ وہ اپنے کسی حکم کو تبدیل کر سکے۔ انور منصور نے کہا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا قیام ہی غیر قانونی ہے اس لئے سب سے پہلے اس معاملے کو حل ہونا چاہئے،