کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں
تو پھر ہم بُری طرح بے گھری کا شکار ہیں۔ ہمارا معاشرہ کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو گیا ہے۔ کتاب سے بڑا دوست کون تھا۔ شاید اب دوستی کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی کہیں نہ کہیں سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب کے ساتھ رشتے کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ لکھنے پڑھنے والے لوگ کتابیں لکھتے رہتے ہیں۔ مگر کئی پبلشر کوئی اور بزنس کرنے لگے ہیں۔ جو دوست کتابیں چھاپتے ہیں تو وہ کچھ سوچ سمجھ کر کتاب چھاپتے ہونگے۔ کتاب بالکل نہیں بکتی تو چھاپی کیوں جاتی ہے۔ کتاب پڑھنے کا ذوق و شوق کم ہوا ہے ختم نہیں ہوا۔ شعر و ادب پر مشتمل کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔
پچھلے دنوں نوائے وقت کے کالم نگاروں کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ کالم نگار افسانہ نگار فہمیدہ کوثر نے اب شاعری شروع کی ہے۔ ’’گئی رتوں کا حساب رکھنا‘‘۔ فرمان قریشی نے نوائے وقت میں چھپنے والے کالموں کا انتخاب شائع کیا ہے۔ ’’طلوع آفتاب‘‘۔ ممتاز ادیب علی نواز شاہ نے بہت پسند کئے جانے والے ناول لکھے ہیں۔ ایک بہت دلچسپ کالم خواجہ سرائوں پر لکھا ہے۔ میری فرمائش پر ایک بہت شاندار ناول معذور لوگوں پر لکھا ہے۔ ’’پُتلے‘‘ اور مجھے حیران کر دیا ہے۔ ایک حاضر سروس پولیس افسر شارق جمال خان کی شاعری کی کتاب ’’آتش زیرپا‘‘ شائع ہوئی ہے۔ ایک دور آباد علاقے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے موضع گوٹھ مالو کے رہنے والے بشیر بیتاب کی شاعری کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا نیا شعری مجموعہ ’’سلگتے زخم‘‘ برادرم تنویر ظہور نے مجھے دیا ہے۔ ملک مقبول احمد ایک دل والے پبلشر ہیں۔ وہ خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں میں انہیں ادیب پبلشر کہتا ہوں۔ انہوں نے ’’ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تحقیق و تنقید کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی ہے۔ جو پروفیسر فاروق فیصل نے تحریر کی ہے۔ نجیب احمد ایک ممتاز و محترم شاعر ہیں۔ ہم نے ایک زمانہ اکٹھا گزارا ہے۔ اس طرح نامور دوست شاعر مرحوم خالد احمد بھی یاد آتا ہے۔ عمر کے آخری برسوں میں اُس نے نوائے وقت میں بہت خوبصورت کالم لکھے تھے۔ میں نجیب احمد کی منفرد شاعری کی کتاب ’’ازل‘‘ کے لئے کسی دوسرے کالم میں ذکر کروں گا۔ میرا کالم سیاسی نوعیت کا ہے مگر میں شعر و ادب سے نسبت سے چاہتا ہوں کہ غیر سیاسی موضوع پر بھی لکھوں اور کبھی کبھی ادبی کالم بھی تحریر کروں۔
نوائے وقت کی کالم نگار اور ادیبہ فہمیدہ کوثر شاعرہ ہو کر فہمیدہ کوثر فہمی ہو چکی ہے۔ ہم فہمی صاحبہ کو شاعری کے صدر دروازے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ ممتاز شاعر کالم نگار اور اینکر پرسن وصی شاہ لکھتے ہیں ’’فہمی صاحبہ کو پڑھ کر زندگی کا کوئی نہ کوئی نیا اینگل آشکار ہوتا ہے‘‘۔ خوبصورت نام کے خوبصورت شاعری مجموعے ’’وعدے‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف نے لکھا ہے۔ فہمیدہ بات کہنا جانتی ہے اُسے کسی اچھے سانچے میں ڈھالنا بھی اُسے آتا ہے‘‘۔ اعجاز فیروز نے بھی مضبوط رائے مشاعرہ کے بارے میں دی ہے۔
فرمان قریشی نے اپنی کتاب ’’طلوع آفتاب‘‘ کا انتساب مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کے نام کیا ہے۔ وہ ایک قابل ذکر کالم نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ کتاب کے نام طلوع آفتاب پر غور کیا جائے تو فرمان قریشی کی صحافتی حیثیت معلوم ہو جاتی ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ فرمان 1994ء سے نوائے وقت میں کالم لکھ رہے ہیں۔ اُن کے لئے تقریب پذیرائی گورنر ہائوس لاہور میں ہوئی تھی۔ جس کی صدارت چودھری محمد سرور نے کی تھی۔ سینئر صحافی اور کالم نگار شاعر سعید آسی نے لکھا ہے کہ اُن کے کالم اُن کی گہری نظر اور باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سینئر صحافی جاوید صدیق نے سیاسی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ان کے سیاسی شعور کو سراہا ہے۔
علی نواز شاہ ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ وہ بڑی روانی فراوانی اور آسانی سے لکھتے ہیں۔ وہ اس ناآسودہ ماحول میں گیارہ ناول لکھ چکے ہیں۔ وہ نامور شاعر فرحت عباس شاہ کے دوست ہیں اور نثر میں اپنے کمالات دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’خواجہ سرائوں کے لئے اپنے ناول کی تقریب کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم اتنے زبردست ناول نگار ہو۔ معذوروں پر بھی کچھ لکھو۔ ’’اُن کا یہ شاندار ناول دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ ہم مجبور ہیں اور معذوروں سے زیادہ معذور ہیں۔ اب نجانے ہمارے بارے میں کب ناول لکھا جائے گا۔ اس نے اپنے ابتدائیے میں یہ بھی لکھا ہے۔ ’’پہلا اور آخری شاعر پیارا بھائی فرحت عباس شاہ بڑا آدمی ہے۔ ناول کا نام ’’پتلے‘‘ اس نے مجھے عطا کیا ہے‘‘۔ فرحت محبوب شاعر تو ہے۔ یہ ’’پہلا اور آخری شاعر‘‘ سے کیا مراد ہے؟
ہم نے چھوڑا نہیں بشر ہونا
خیر کے ہیں کبھی ہیں شر کے ہم
اتنا ڈوب کر لکھنے والے شارق جمال خان سے کوئی تعارف نہ تھا۔ ایک تو پولیس افسر اور اوپر سے پٹھان تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا ہو گا کہ اتنا بااختیار آدمی شاعر بھی ہو گا اور اتنا شاندار شاعر ہو گا۔ گہرے جذبوں کو جمال کا رنگ روپ دینے والا خوبصورت انسان اپنے اندر بے اختیاریوں کے لطف کو بھی محسوس کرتا ہو گا۔ اختیار والے اگر بے اختیاری کے کیفیت سے آشنا ہو جائیں تو محبت اور شاعری کو اپنا دوست بنا لیں گے۔ شارق جمال خان نے کسی گیت کا یہ مصرعہ تو سُنا ہو گا۔
مینوں لگ گئی بے اختیاری
اب میں نے وہ راز پا لیا ہے کہ وہ زیر پا آتش ہے اُس کی حرارت شاعر نے دل میں محسوس کی ہے۔ یہ خوبصورت شعری مجموعہ مجھے میرے کولیگ صحافی دوست عمران نے لا کے دیا اور اس کے بعد وہ شارق صاحب کو بھی لے کے میرے گھر آ گیا۔ میں ایک درویش آدمی ہوں۔ افسروں اور حکمرانوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں اور اگر وہ شاعر اور اہل ذوق بھی ہوں تو صرف حیران ہونا ہے۔ یہ حیرت ملاقات سے افضل ہوتی ہے مگر مجھے شاعر پولیس افسر شارق سے گفتگو کر کے مزا آیا۔ ایک اور بات مجھے پسند آئی کہ انہوں نے اپنی کتاب کے لئے کسی سے فلیپ یا رائے نہیں لکھوائی۔ یہ ان کے صاحب الرائے ہونے کی دلیل ہے۔ اُن کی شاعری اُن کے صاحب دل ہونے کی نشانی ہے۔ پولیس افسر کے طور پر مظلوم لوگوں کا حق اُن پر ہے۔ ظالموں کا حق بھی اُن پر ہے۔ ظالموں کا حق یہ ہے کہ انہیں ظلم کرنے سے روک دیا جائے۔
ایک دور آباد علاقے میں ویرانیوں اور وسعتوں کو اپنے دل میں ہم آہنگ کرنے والا بشیر بے تاب بہت اچھا شاعر ہے۔ شاعری کے کئی چراغ اُس نے جلائے ہیں۔ ’’سلگتے زخم‘‘ بھی ایک ضخیم کتاب ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ضخیم اور عظیم ہم قافیہ ہیں۔ یہ خیال ایک سچائی ہے کہ مضافات میں بہتر شاعری ہو رہی ہے۔ تنویر ظہور کہتے ہیں کہ بشیر بے تاب سلگتے زخموں کے ساتھ اپنا جیون گزار رہے ہیں۔ ان کی شاعری اور اُن کی زندگی ہم رنگ ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بے ساختہ اور قادرالکلام شاعر اقبال راہی لکھتے ہیں۔ ’’پنجاب اور سندھ کے سنگھم پر رحیم یار خان کے دیہاتی علاقے میں بیٹھے ہوئے شاعر بشیر بے تاب کو پورے ملک میں پڑھا جاتا ہے۔
ادیب پبلشر ملک مقبول احمد نے سنجیدہ ادب کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ وہ درویش انسان ہیں۔ دوسرے پبلشروں کی طرح دکانداری نہیں کرتے۔ ہمارے عہد کے نامور محقق شاعر اور استاد ڈاکٹر طاہر تونسوی کے تعلیمی تخلیقی کام پر ایک کتاب لکھی گئی ہے۔ ایسا کام ڈاکٹر سلیم اختر نے کیا ہے اور پھر ڈاکٹر طاہر تونسوی نے کیا ہے۔ دونوں کی آپس میں وابستگی وارفتگی تک پہنچی ہوئی ہے۔ ایسی کتابیں کوئی پبلشر نہیں چھاپتا۔ یہ کام ملک مقبول احمد نے کیا ہے اور وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پروفیسر فاروق فیصل بھی مبارکباد کے مستحق ہیں اور ڈاکٹر طاہر تونسوی کے لئے تو کئی مبارکبادیں ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ تینوں دوست کسی مفاد پذیرائی اور غرض کے بغیر ساری عمر اپنی مستی میں زندہ رہتے ہیں۔