عافیہ صدیقی کا معاملہ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس ہی دیکھ سکتا ہے: افسران ایف بی آئی
عافیہ صدیقی کا معاملہ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس ہی دیکھ سکتا ہے: افسران ایف بی آئی
واشنگٹن (سید شعیب الدین سے) نیویارک آج بھی دہشت گردوں کا پاپولر ٹارگٹ ہے۔ یہاں دوبارہ حملے کا خطرہ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گردی کا واقعہ اسی شہر میں ہوا تھا۔ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ سمیت 32 ادارے ملکر دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کام کر رہے ہیں۔ جیسے ہی خطرے کی کوئی اطلاع ملتی ہے نظرانداز نہیں کرتے فوراً وہاں پہنچتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نیویارک سٹی جائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے ایف بی آئی کے سینئر افسران نے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنیوالے اخبار نویسوں کے 12 رکنی وفد سے ملاقات میں کیا۔ ایف بی آئی افسران کا کہنا تھا کہ ہر ہفتے 100 سے زائد اطلاعات ملتی ہیں جن میں دہشت گردوں کے بارے اطلاع دی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے ہر ملک میں ایف بی آئی کے نمائندے موجود ہیں۔ یہ سفارتخانوں میں تعینات ہوتے ہیں اور لیگل اتاشی کہلاتے ہیں۔ امریکہ کی ہر ایجنسی سے تعاون کرتے ہیں اور تمام ایجنسیوں کی مدد سے کام کرتے ہیں۔ ایک بھارتی اخبار نویس کی طرف سے بھارتی حکومت کو مطلوب داﺅد ابراہیم کی گرفتاری کیلئے مدد دینے کے سوال پر کہا کہ اس کام کیلئے انٹرپول کے ادارے کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ایف بی آئی کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ ملکر وار آن ٹیرر پر کام کر رہے ہیں۔ فیصل شہزاد کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس نے اپنا جرم تسلیم کرلیا تھا، اسے سزا سنائی جاچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فاٹا اور وہاں کا ملحقہ علاقہ ہمارے لئے بیحد اہم ہے، وہاں دو سکواڈ کام کر رہے ہیں۔ ایف بی آئی افسران نے بتایا کہ انکے تیار کردہ کیسوں میں سزا کا تناسب 99.9 فیصد ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پاکستان واپسی کے سوال پر انکا کہنا تھا کہ انہیں سزا سنائی جا چکی ہے، انکا معاملہ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس دیکھے گا۔ پریس سنٹر فار جسٹس میں لبرٹی اینڈ نیشنل سکیورٹی پروگرام کی کوآرڈینیٹر پاکستانی نژاد امریکی فائزہ پٹیل نے کہا کہ نائن الیون کے بعد نیویارک میں بہت کچھ خصوصاً پولیس بدلی ہے۔ ایف بی آئی جو قانون نافذ کرنے والا ادارہ تھا، انٹیلی جنس ایجنسی بن گیا۔ آج نیویارک میں 7 لاکھ پولیس اہلکار و افسران اور 40 ہزار ایف بی آئی ایجنٹ ہیں۔ فائزہ پٹیل نے بتایا کہ نیویارک کی 80 لاکھ آبادی میں 8 لاکھ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے بارے ہر طرح کی معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔ جو مسلمان کسی معمولی جرم میں پکڑا جاتا ہے اسے انفارمر بنایا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد پولیس ہر مسلمان کو مشتبہ سمجھتی ہے۔
ایف بی آئی