چودھری اسلم کو بغیر ٹائر جیک پر کھڑی بارودی گاڑی سے نشانہ بنایا گیا‘ ماتحت اہلکاروں سے بھی تفتیش
چودھری اسلم کو بغیر ٹائر جیک پر کھڑی بارودی گاڑی سے نشانہ بنایا گیا‘ ماتحت اہلکاروں سے بھی تفتیش
کراچی (نوائے وقت نیوز) ایس ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم پر حملے کا نیا پہلو سامنے آگیا، دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی بغیر ٹائروں کے کھڑی تھی۔ تفتیشی حکام کے مطابق لیاری ایکسپریس وے پر ہونے والے دھماکے کی جگہ سے ملنے والے جسم کے اعضاءکے نمونے اور مبینہ بمبار نعیم اللہ کے بھائی شفیع اللہ اور والد رفیع اللہ کے ڈی این اے نمونے بھی اسلام آباد ٹیسٹ کے لئے بھجوا دیئے گئے جبکہ دھماکے کی جگہ سے ملنے والے گاڑی کے پارٹس سوزوکی گاڑی کے ہیں۔ زخمی ٹیکسی ڈرائیور دلاور نے پولیس کو بیان دیا کہ جس سوزوکی پک اپ سے دھماکہ کیا گیا اس کے ٹائر نکلے ہوئے تھے اور وہ جیک پر کھڑی کی گئی تھی اور جیسے ہی ڈبل کیبن گاڑی سوزوکی کے قریب پہنچی تو دھماکہ ہو گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ دھماکہ کے وقت وہ کاٹھور ہائی وے سے سواری لے کر ماڑی پور جا رہا تھا۔ تفتیشی حکام کے مطابق ٹول پلازہ چوکی کے انچارج اور تین ملازمین کے بھی بیان لئے گئے ہیں۔ دوسری جانب پولیس نے چوکی انچارج لیاری ایکسپریس وے سمیت 4 افراد کو شامل تفتیش کر لیا گیا۔ دریں اثناءپولیس ذرائع کے مطابق شہید ایس پی چوہدری اسلم خان پر حملے کی تحقیقاتی ٹیموں نے ان کے دفتر اور گھر میں کام کرنے والے ملازمین اور پولیس اہلکاروں کے موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بیانات بھی قلمبند کرنا شروع کر دیئے جبکہ ان کی حرکت و سکنات پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ اس ضمن میںایس ایس پی نیاز احمد کھوسو نے بتایا کہ واقعے کی ہر زاویئے سے تفتیش کی جارہی ہے کہ مبینہ خودکش حملہ آور نعیم اللہ کو اس کارروائی کے لئے کراچی میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کس گروہ نے تیار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرچینج پر موجود عملے کو ہدایات تھیں کہ چوہدری اسلم کے قافلے کو کسی بھی صورت یہاں نہ رکنے دیا جائے، ان کی آمد سے قبل ہی رکاوٹ کو ہٹا دیا جائے، دہشت گردوں کو چوہدری اسلم کے راستے اور حکمت عملی کا پہلے سے ہی علم تھا اور انھوں نے دھماکے سے قبل مکمل طور پر منصوبہ بندی کی تھی کہ لیاری ایکسپریس وے سے قبل آنے والے موڑ پر ان کی گاڑی کی رفتار کم ہو گی اور اسی وجہ سے دہشت گردوں نے حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی ایسی جگہ کھڑی کی جس سے چوہدری اسلم خان نہ بچ سکیں۔ نیاز احمد کھوسو کا کہنا تھا کہ ملنے والی شہادتوں کے مطابق جس سوزوکی پک اپ کے ذریعہ دھماکہ کیا گیا اس کے علاوہ بھی ایک سوزوکی چودھری اسلم پر حملہ کیلئے تیا رکی گئی تاہم دوسری سوزوکی کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا کہ وہ کہاں گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر دو سے تین ٹیمیں اس حملہ کیلئے تیار تھیں، کراچی پولیس کے مطابق یہ پہلا دہشت گرد حملہ ہے جس کے حملہ آور کی شناخت نادرا ریکارڈ کے ذریعہ ہوئی ہے۔دریں اثناءایک نجی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خودکش دھماکے کا نشانہ بننے سے پہلے ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کو کس نے فون کر کے دفتر بلایا تھا، کوئی افسر تھا یا ماتحت؟ موٹروے پولیس کو لیاری ایکسپریس وے پر ایک گھنٹے تک انتظار کرنے والے کیوں نظر نہیں آئے؟ نجی ٹی وی کے مطابق چودھری اسلم کی شہادت کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے جس میں دفتر سے فون کس نے کیا اور ایسا کیا پیغام دیا گیا کہ شہید ایس پی اچانک دفتر کو نکل گئے۔ کیا اندر کا کوئی آدمی قاتلوں سے ملا ہوا تھا جس نے پل پل کی خبر دہشت گردوں تک پہنچائی۔ دہشت گرد 58 منٹ تک گھات لگائے بیٹھے رہے لیکن موٹروے پولیس کی چھٹی حس کیوں نہ جاگی؟ کیا موٹروے اہلکاروں سے تفتیش کی گئی؟ چودھری اسلم کی بم پروف گاڑی خراب ہوگئی تھی تو ویسی ہی گاڑی انہیں کیوں نہیں دی گئی؟ رات بھر جاگ کر آپریشن کرنیوالے چودھری اسلم کو کس نے دفتر بلایا؟ چودھری اسلم اور انکے ساتھ شہید ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کے موبائل فونز کہاں گئے، کیا دھماکے کے مقام سے تین موبائل فون برآمد کئے گئے؟ اگر موبائل فون ملے تو علم ہوا یا نہیں کہ آخری کال کس نے کی تھی؟ اگر موبائل فون وہاں سے نہیں ملے تو پھر کہاں غائب ہوگئے؟ چودھری اسلم بچوں کو چھوڑنے ٹیوشن سنٹر جاتے تو انکا روٹ تبدیل ہوجاتا۔ کیا قانون نافذ کرنیوالے ادارے ان سوالوں کے گرد اپنی تفتیش کا دائرہ گھمائیں گے یا اس ہائی پروفائل کیس کے ساتھ ہی ایف آئی آر کی طرح ہوگا جس میں شہید چودھری اسلم کے نام کی جگہ محرر نے انکے والد کا نام ڈال دیا۔
چودھری اسلم