آج حساس ادارے لاپتہ افراد سے انکار کر رہے ہیں ‘ کل حکومت کہہ دیگی ہمارے شہری نہیں : جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے لاپتہ مسعود جنجوعہ کی بازیابی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت ملتوی جبکہ وزارت دفاع اور حکومت پنجاب سے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے وزارت دفاع کی جانب سے 11 میں سے 4 ذمہ داروں کے جمع کرائے گئے بیانات حلفی کو خفیہ رکھنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے باقی ذمہ داروں کے بیان حلفی بھی داخل کرانے کی ہدایت کی ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع نے پہلے درخواست میں نامزد پانچ ذمہ داروں سابق صدر پرویز مشرف، سابق اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم، کمال شاہ، جاوید اقبال چیمہ اور سابق سیکرٹری دفاع اطہر علی عباس کے بیان حلفی عدالت میں داخل کراتے ہوئے استدعا کی کہ مذکورہ بیانات حلفی کو خفیہ رکھا جائے۔ عدالت نے بیانات حلفی کا جائزہ لینے کے بعد اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس نے اس عہدے پر رکھا ہے، آپ کو قانون کا پتہ ہی نہیں۔ کیا بیان حلفی ایسے ہوتے ہیں؟ عدالت نے سابق سیکرٹری دفاع اطہر علی عباس کے بیان حلفی سے متعلق کہا کہ نہ اس پر ادارے کی مہر ہے اور نہ ہی دستخط ہیں۔ عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے تصحیح کے بعد دوبارہ داخل کرانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ جہانگیر اختر، منصور سعید شیخ، حبیب اللہ، شفاقت، ندیم تاج اور جاوید اقبال لودھی کے بیان حلفی کیوں داخل نہیں کرائے گئے۔ اس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع نے بتایا کہ ان افراد کو ٹریس کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ یہ ریٹائرہو چکے ہیں۔ عدالت نے لاپتہ فرد خاور محمود سے متعلق کیس کی سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب سے معاملے پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے لاپتہ فرد کو بھی بازیاب کروا کر پیش کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ تمام لاپتہ افراد اس ملک کے شہری ہیں اور ان کیخلاف صرف قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بار بار کہہ چکے ہیں کہ ان لاپتہ افراد کو اپنے شہری سمجھیں۔ آج حساس ادارے ان کے غائب کئے جانے کے حوالے سے انکار کر رہے ہیں‘ کل کو حکومت کہہ دے گی کہ یہ تو ہمارے شہری ہی نہیں۔ حکومتوں کو ان لاپتہ افراد کا سہارا بننا چاہئے مگر بدقسمتی سے وہ نہیں بن رہی ہیں۔ کوئی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں‘ قانون ہی بااثر ہے اور سب اس کے زیر اثر ہیں۔ بادی النظر میں جو بھی ملوث ہو گا اس کیخلاف قانون کے مطابق ضرور کارروائی ہو گی۔ لاپتہ افراد سے متعلق ایک اور مقدمے میں جسٹس ناصر الملک نے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر وزارت دفاع کے متعلقہ حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے خفیہ اداروں کی رپورٹ مسترد کر دی ہے۔ لاپتہ فرد مدثر اقبال کے معاملے پر عدالت نے لاہور کے حراستی مرکز کے انچارج کو 28 جنوری کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے جبکہ محمد جمیل سے متعلق وزارت دفاع سے 20 جنوری تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے خفیہ اداروں کی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ معاملے میں خفیہ ادارے ملوث نہیں ہیں۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے جس معاملے میں پولیس اور خفیہ ادارے ملوث ہوں اور افراد کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہ ہوں۔ گذشتہ سماعت میں خفیہ اداروں نے لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ملوث ہونے کا اقرار کیا تھا۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران خفیہ اداروں نے سات سو افراد کی حراستی مراکز میں موجودگی کا اقرار کیا تھا۔