بیرونی قوتوں کے مقاصد اپنی جگہ‘ حکومت خود بھی تو دہشتگردی کا تدارک کرے
چودھری نثارعلی کا گولی سے جواب دینے والوں سے جنگ اور دوسرے گروپوں سے مذاکرات کا متضاد اعلان
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہماری اولین ترجیح ہے مگر تحریک طالبان کی قیادت حکومت سے مذاکرات سے مکمل انکار کر رہی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا جواب گولی سے دینے والے گروپوں سے ہماری جنگ ہو گی‘ وہ جہاں بھی ہونگے‘ ان کا تعاقب کیا جائیگا۔ انکے بقول طالبان سے مذاکرات کا معاملہ حساس مرحلے میں داخل ہے‘ اس پر ابھی کھل کر بات نہیں کی جا سکتی۔ تاہم بہتر نتائج کی توقع رکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مولوی فضل اللہ حکومت سے مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں تو ایک غیرملکی طاقت مذاکراتی عمل کو ناکام بنانے کیلئے ڈرون حملے کر رہی ہے‘ ہم مذاکرات آئین کے دائرہ کار اور پاکستان کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی کرینگے۔ انکے بقول قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی سے دہشت گردی ختم ہونے کا تاثر درست نہیں۔ اسلام میں فلاح و نیکی کا راستہ گولی نہیں‘ امن ہے۔ ہمیں اب پاکستان کی سرزمین کو آگ و خون کی ہولی سے پاک کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی طاقتوں نے اپنے مقاصد کیلئے خطے کو نہ ختم ہونیوالی جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے‘ ہم نظر نہ آنیوالے دشمن سے برسر پیکار ہیں۔ انکے بقول طالبان ایسی قوت ہیں‘ جن سے مذاکرات بھی مشکل ہیں اور ان کیخلاف اپریشن بھی۔ طالبان کے مختلف گروپ ہیں‘ جن پر طاقت کا استعمال کرنا مشکل ہے۔ امن کیلئے مذاکرات حکومت کی پہلی ترجیح ہے‘ جو گروپس مذاکرات کرنا چاہیں گے‘ ہم ان سے مذاکرات کرینگے‘ تاہم جو بھی ریاست کو چیلنج کریگا‘ اس سے مذاکرات نہیں ہونگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے ہر شہری کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا اور شہریوں کی کاروبار اور ملک کے اندر نقل و حمل کی آزادی کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے جو سکیورٹی اداروں کی شکل میں موجود مو¿ثر حکومتی مشینری کے ذریعے بروئے کار لائی جاتی ہے۔ اگر کوئی حکومت اس بنیادی آئینی ریاستی ذمہ داری کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام لے یا ناکام رہے تو اس حکومت کے اپنے وجود کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ اس تناظر میں ہی ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید انسانی جانوں کے ضیاع اور معیشت کی تباہی سے بچا جا سکے۔ دہشت گردی کا جو بھی پس منظر ہے‘ وہ سابق جرنیلی آمر مشرف کے دور حکومت سے منسلک ہے جس پر پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی صاد کئے رکھا اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت بھی مشرف حکومت کے طے کردہ معاہدے کے تحت ہی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ ڈرون حملے بھی اسی معاہدے کا حصہ ہیں۔ ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کی آئینی ذمہ داری تو اپنی جگہ‘ حکومت کو دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا ہے مگر بدقسمتی سے حکومت اپنی گومگو کی پالیسی کے باعث دہشت گردی کی جنگ میں اپنے کردار کے حوالے سے امریکہ کو بھی مطمئن نہیں کر پا رہی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے آئینی فریضے کی ادائیگی میں بھی کمزوری دکھا رہی ہے جس کے نتیجہ میں ملک کی سالمیت کو کمزور کرنے اور اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنیوالے عناصر کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں اور وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس تناظر میں موجودہ حکومت کے اقتدار کے سات ماہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ عرصہ بدترین دہشت گردی کے پے در پے واقعات میں لتھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکومت کی جانب سے جب بھی قیام امن کیلئے مذاکرات کو اولین ترجیح بنانے کا اعلان کیا جاتا ہے‘ دہشت گرد عناصر اس کا جواب دہشت گردی کی کسی نہ کسی گھناﺅنی واردات کے ذریعے دیتے ہیں اس لئے مذاکرات کے عمل کی کسی ناکامی کو ڈرون حملوں کے ساتھ منسلک کرکے درحقیقت دہشت گردوں کے مقاصد کی پردہ پوشی کی جارہی ہے جبکہ ملک میں ڈرون حملے ہوں‘ فوجی اپریشن ہو یا امن کی بحالی کا راستہ ہموار ہورہا ہو‘ اپنا مخصوص ایجنڈہ رکھنے والے انتہاءپسند عناصر کو ملک کے کسی بھی نوعیت کے حالات سے کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے ہر صورت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش کرنی ہے جس کا گزشتہ ایک ہفتے سے جاری دہشت گردی کی وارداتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کراچی اور ہنگو کی دہشت گردی کے بعد گزشتہ روز ضلع شانگلہ کے علاقے کہنار میں وزیراعظم کے مشیر امیرمقام کے قافلے پر یکے بعد دیگرے ہونیوالے دو ریموٹ کنٹرول بم حملے اور اسی روز پشاور کے علاقے بڈھ پیر میں اے این پی کے رہنما میاں مشتاق پر ہونیوالے حملے اس کا بین ثبوت ہیں۔ اگرچہ امیرمقام خود محفوظ رہے تاہم دہشت گردی کی ان دو وارداتوں میں چھ پولیس اہلکاروں اور میاں مشتاق سمیت مجموعی طور پر 9 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اے این پی نے دہشت گردی کی ان وارداتوں کو خیبر پی کے حکومت کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ کی گزشتہ روز کی بات چیت اس امر کا واضح عندیہ دے رہی ہے کہ وفاقی حکومت دہشت گردوں کیخلاف موثر اور فیصلہ کن اپریشن کے بارے میں خود بھی اپنی کمزوری کا تاثر پختہ کرکے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھا رہی ہے۔ چودھری نثارعلی خان ایک جانب تو مذاکرات کا جواب گولی سے دینے والوں کیخلاف حکومت کی کھلی جنگ کا اعلان کر رہے ہیں جبکہ انہی پاﺅں پر کھڑے ہو کر وہ طالبان گروپوں کیخلاف طاقت کا استعمال مشکل قرار دے کر دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس اور قطعی اپریشن کے عملاً ناممکنات میں شامل ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر اس تضاد بیانی کے بعد کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ امن یا اپریشن میں سے حکومت کے اٹھائے گئے کسی بھی اقدام کے تحت ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات مل پائے گی؟ چودھری نثارعلی خان جب کالعدم تحریک طالبان کے امیر مولوی فضل اللہ کے حوالے سے خود اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ حکومت سے مذاکرات سے مکمل انکاری ہیں تو پھر مذاکرات کا جواب گولی سے دینے والوں کیخلاف قطعی اپریشن میں کیا امر مانع ہے؟ اگر حکومت طالبان کے بعض گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے جس کا چودھری نثارعلی خان عندیہ بھی دے رہے ہیں تو دہشت گردی میں مصروف دیگر طالبان گروپوں کے ہاتھوں ملک کا امن و سکون بدستور تاراج ہوتا رہے گا‘ نتیجتاً شہریوں بشمول سکیورٹی اہلکاروں کی زندگیوں کا تحفظ بھی نہیں ہو پائے گا اور دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے اٹھاتے قومی معیشت بھی تباہی کے دہانے تک جا پہنچے گی۔ حکومت کی ایسی متضاد پالیسیوں کے باعث ہی تو ملک سنگین بحرانوں کا شکار ہے اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے یہاں سرمایہ کاری کا ارادہ ہی ترک کر دیا ہے جبکہ دہشت گردوں کے آگے حکومت کے سرنڈر ہونے کا تاثر دے کر اس معاشرے کا جنگل کے معاشرے والا تشخص بنایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگر ملک کو امن و آشتی کی جانب واپس لوٹانا اور شہریوں کے جان و مال اور کاروبار کے تحفظ کو آئینی تقاضے کے تحت یقینی بنانا ہے تو پھر حکومت کو گومگو سے نکل کر کسی ایک ٹھوس اور مو¿ثر پالیسی پر کاربند ہونا ہو گا۔ چودھری نثارعلی خان کے اپنے بقول طالبان قیادت مذاکرات سے مکمل انکاری ہے تو پھر مذاکرات کو قیام امن کا امرت دھارا بنانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ چنانچہ یہی وقت ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق اپنی پالیسیوں میں موجود تضادات ختم کرکے ایک ٹھوس حکمت عملی طے کرے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا آغاز کر دے ورنہ ملکی استحکام‘ قومی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔