مصطفوی سیاست کے بنیادی اصول
آج 12 ربیع الاول کا مبارک دن ہے۔ یہ دن انسانی تاریخ کا ایک سہانا، منور اور بابرکت دن ہے جس کی صبح تاریخ انسانی میں صبح بہارِ جاوداں ٹھہری۔ آج کے دن عرب کا وہ چاند مطلع حیات پر افروزاں ہوا جس کی روشنی نے تاریک کائنات کو نوید رحمت سے منور کر دیا۔ آج سیّدہ آمنہؓ کی گود میں حسنِ مطلق کی تمام رعنائیاں سمٹ کر جلوہ گر ہو گئیں۔ قدرت کی بے نیازیاں دیکھئے کہ جس وجود مسعود کے ذریعے کائنات کو سعادتوں اور رحمتوں سے نوازنا تھا اس کا جنم ایک بیوہ خاتون کے ہاں ہو رہا ہے۔ یتیمی کا داغ لے کر پیدا ہونے والے اس بچے کی پرورش کیلئے قبیلہ بنو سعد کے ایک نہایت تنگ دست خاندان کا انتخاب ہوا۔ حلیمہ سعدیہ نے اس در یتیم کی پرورش کا ذمہ لیا تو سعادتیں ان پر گویا مہربان ہو گئیں۔ بچہ کچھ بڑا ہوا اور اسے ماں کی مہربان ممتا اپنی آغوش رحمت میں سمیٹنے کیلئے بے قرار ہوئی تو عین حالت سفر میں اپنے خاندان سے بہت دور ”ابوا“ کے ویرانوں میں اللہ پاک نے سیّدہ آمنہؓ کا سایہ بھی اٹھا لیا۔ خادمہ کے ساتھ مکہ لوٹے تو آپ کے واحد کفیل آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب تھے۔ ان کے پاس مذہبی سیادت تو موجود تھی مگر معاشی آسودگی ہرگز نہیں تھی۔ پھر اسی بچپنے میں دادا کا ظاہری سہارا بھی چھن گیا تو ان کی پرورش چچا ابو طالب کے حصے میں آئی جن کا شمار خاندان بنو ہاشم کے شرفاءمیں ضرور ہوتا تھا لیکن ان کے ہاں بھی فقر و فاقہ کا ماحول تھا۔ چنانچہ اللہ کے محبوب نے لڑکپن میں خودکفالت کا فیصلہ کیا اور مزدوری پر اہل مکہ کی بکریاں چرائیں۔ قدرت آپ کو حالات سے لڑنے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی تربیت دے رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے عہدِ شباب میں قدم رکھا تو آپ مکہ کے معروف کاروباری لوگوں میں شامل ہوچکے تھے۔ آپ جب عملی زندگی میں آئے تو آپ کی شخصیت مبارکہ میں خود داری اور خود تعمیری جیسی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خدا ترسی اور یتیم پرور خوبیاں بھی رچ بس چکی تھیں۔ چنانچہ حرا کی خلوتوں میں جب آپ کو پہلی وحی سے نواز کر بعثت سے ہمکنار کیا گیا اور رب ذوالجلال نے آپ کو بعد ازاں رحمة للعالمین کے خطاب سے ملقب فرمایا تو آپ عملاً غم و آلام کی ہر کیفیت سے گزر کر پورے احساسات و جذبات کے ساتھ دکھی انسانیت کے غموں کا مداوا کرنے کیلئے تیار ہو چکے تھے۔ یہی تحمل، برداشت، صبر اور استقامت تھی جس نے کفار مکہ کی ہر سازش اور مشکل کے مقابلے میں آپ کو کوہ گراں بنا دیا۔ آپ نے اپنی ذات میں جہاں بھر کی سختیاں سمیٹیں اور دنیا بھر پر رحمتوں کی بارش فرمائی جو آپ کی تعلیمات کی صورت میں اب بھی جاری ہے۔
ہمارے آقا کی آمد پوری کائنات انسانی میں نئے نظام حیات کی شروعات کا آغاز تھا۔ آپ نے ہجرت کے بعد ریاست مدینہ کو جن تین بنیادی ستونوں پر استوار کیا ان میں سے پہلا ستون مسجد دوسرا مواخات اور تیسرا میثاق تھا۔ یہ تینوں خصائص مصطفوی معاشرت و معیشت اور نئے تعلیمی، تربیتی اور قانونی ضابطوں کی علامت قرار پائے۔ یہ تینوں عناصر مصطفوی سیاست و معاشرت کے بنیادی ستون ہیں۔ یہ تینوں کام دراصل آپ کے وہ فوری بنیادی اقدامات تھے جو یکے بعد دیگرے آپ نے مدینہ منورہ میں متعارف کروائے۔
آپ کا دوسرا اقدام معاہدہ مواخات تھا جس میں آپ نے مہاجر و انصار کو ایمان کی ایک لڑی میں پرودیا۔ ان کے مفادات اور ان کے نقصانات کو ایک دوسرے سے وابستہ فرمادیا۔ مواخات کا دوسرا اور بڑا مقصد مہاجرین کی معاشی کفالت تھا۔ مواخات کو گویا مصطفوی معاشرے کی دوسری بڑی علامت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ یہ اقدام مصطفوی انقلاب کے قیام و استحکام کی ضمانت تھی۔ معاشی ضرورتوں سے بے نیاز ہوکر نہ کوئی نظام جڑ پکڑ سکتا ہے اور نہ کوئی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ معاشی طور پر فعال کارکن ہی پُرامن اور پائیدار انقلاب کا راستہ ہموار کرسکتے ہیں۔ حضور کی شخصیت اور قیادت کو اپنے لئے اسوہ حسنہ قرار دینے والا کوئی شخص کسی بھی دور میں اس وقت تک قیادت و سیادت کا دم نہیں بھرسکتا اور نہ اس کی روحانی مذہبی اور دینی خدمات معاشرے میں اپنا اثرو نفوذ ممکن بنا سکتی ہیں جب تک وہ مواخات کی روح میں اُتر کر کارکنوں کی معاشی کفالت کا احساس نہیں کرتا۔
ریاست مدینہ اور مصطفوی انقلاب کا تیسرا بڑا وصف میثاق مدینہ کا تاریخی معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ حضور کی سیاسی عبقریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میثاق مدینہ دراصل ریاست مدینہ کی آئینی اور دستوری ضرورت کی تکمیل بھی تھا اور اسلام کے پُرامن بقائے باہمی کے دلآویز اصول کا اعلان بھی تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے سرورِ کائنات نے یہودیوں سمیت تمام غیر مسلموں کو برابری کے حقوق سے نوازتے ہوئے خیر سگالی کا پیغام دیا۔ مسلمانوں نے ثابت کر دیا کہ ایک سوسائٹی میں بیک وقت کئی مذاہب پر ایمان رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے یکجہتی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی گروہ پُرامن فضا کو خوں آشامی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے تو سب مل کر اس کو باز رکھیں گے ورنہ اسے وہ سوسائٹی چھوڑنا پڑے گی۔ ہمیں افسوس ہے کہ آج رسول رحمت کا کلمہ پڑھنے والے لوگ سوسائٹی میں ”اسلام“ نافذ کرنے کیلئے بے گناہ لوگوں کے خون سے کھیل رہے ہیں۔ آخر وہ کونسا اسلام ہے جو سُنتِ مطہرہ اور اسوہ¿ حسنہ کی بنیادی تعلیمات اور آفاقی اصولوں کی مخالفت کر کے نافذ کیا جانا ہے؟
شام، مصر، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں باغی گروہوں نے کلمہ گو بھائیوں کو تہ تیغ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی واحد ریاست ہے جس کیلئے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ آج یہاں کے سیاسی اور مذہبی قائدین اپنی اپنی ذات کے حصار میں اپنی اپنی انا کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں۔ نہ کسی کو محمد عربیکے اصولوں سے غرض ہے اور نہ کوئی ان کی سیرت کو عملاً اپنانے کے لئے تیار ہے۔ سیاست معیشت اور معاشرت کے جو سنہرے اصول حضور نے متعارف کروائے تھے آج سب نے ان کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ بیشتر دینی اداروں اور شخصیات نے حضور کی تحمل مزاجی اور برداشت سے قطع نظر تعصبات کے بیج بوئے جو آج جنگل کی صورت اختیار کر چکے۔ نہ مسجد کا کردار فعال رہا نہ مواخات کا جذبہ باقی رہا اور نہ میثاق مدینہ کی روح ہماری سیاست میں نظر آتی ہے۔