ہمارا سب سے بڑا اعزاز!
کہتے ہیں منصورحلاج کو جب سنگسار کرنے کی سزا ملی تولوگوں نے سنگ زنی شروع کر دی لیکن منصور پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ مسکراتا رہا۔اسی دوران اسکا ایک دوست وہاں سے گزرا تو اس نے پتھر کی بجائے پھول مارا۔پھول لگنے پر منصور رو دیا۔لوگوں نے حیرانی سے دریافت کیا کہ:” سنگ زنی کی تمہیں تکلیف نہیں ہوئی تو پھول لگنے کی تکلیف کیسے ہوئی ہے‘؟‘ منصور نے جواب دیا:
” دوسرے لوگ جب مجھے مار رہے تھے تو انہیں میرے اندرونی راز کا پتہ نہیں تھاجبکہ یہ میرا دوست ہے ۔یہ میرے راز سے مکمل طور پر واقف ہے ۔مجھے باقیوں کی سنگ زنی کا قطعاً کوئی درد نہیں جتنا اس پھول سے ہوا ہے“۔
یہی کچھ ہمیں مولانا فضل الرحمن صاحب کے بیان پر ہوا ہے۔مولانا صاحب نے پتہ نہیں کس بنیاد کی بناءپر کہہ دیا کہ:
”معلوم نہیں صوبہ خیبر پختو نخواہ پاکستان کے ساتھ رہیگا بھی یا نہیں؟“
پاکستان کی سالمیت اور بقا کے بارے میں اتنا سخت بیان پھول نہیں بلکہ بم مارنے کے مترادف ہے ۔مقصد کا تو شایدکچھ عرصے بعد ہی پتہ چلے کیونکہ مولانا صاحب ہمیشہ بات ایسے انداز میں کرتے ہیں جسکی تہہ تک پہنچنا عام آدمی کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے ۔پہلے موصوف نے کتے کو بھی خاص انداز میں شہید قرار دیا تھا۔آج تک سوچ بچار جاری ہے شاید قوم کسی دن اس فتویٰ کی تہہ میں پوشیدہ مقصد بھی معلوم ہو جائے ۔اگر مقصد صرف امریکہ کو سبق سکھانا ہی تھا تو قوم کو یاد دلانا شاید مناسب ہو گاکہ ایک مرحلے پر جناب مولانا صاحب اسی کافر سفیر کے پاس وزارت عظمیٰ کیلئے سفارش یا مدد تلاش کرنے تشریف لے گئے تھے۔
مولانا صاحب صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مذہبی عالم بھی ہیں ۔اسلام کی روشنی پھیلانے کیلئے مولانا صاحب کے کئی مقامات پر اسلامی مدارس بھی موجودہیں ۔بہت سے طالبان بھی انکے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔افغانستان اور پاکستان دونوں جگہ کے طالبان پر مولانا صاحب کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ اس سے مولانا صاحب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اتنی اہمیت کے باوجود مولانا صاحب کا پاکستان کی سا لمیت کے متعلق اس قسم کا بیان قوم سے کوئی بدلہ لینا نظر آتا ہے ۔ خصوصاً جبکہ مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے ۔ظاہری طور پر تو انہیں پاکستان سے شکایت کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آتی۔ لے دے کر اقتدار سے محرومی کا غم ہو سکتاہے لیکن یہ بھی بے جا معلوم ہوتا ہے کیونکہ مولانا صاحب ہر اقتدار میں شامل رہے ہیں۔ اب بھی انہیں کشمیر کمیٹی کی سربراہی تو مل ہی چکی ہے ۔سانحہ پنڈی کے بعد سے وزارتیں بھی ملنی پکی ہو چکی ہیں ۔
بلوچستان میں بھی وہ بھاری اکثریت سے جیت چکے ہیں۔پھر بھی پاکستان توڑنے کی باتیں اتنی اعلیٰ شخصیت کو زیب نہیں دیتی۔قوم کو پتہ ہونا چاہیے کہ مولانا صاحب کی پارٹی نے شاید تخلیق پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔
حالانکہ پاکستان سے پہلے اس پارٹی کی حیثیت محض مسجد یا مدرسے تک محدود تھی۔یہ پاکستان ہی ہے جس نے اس خاندان کو اتنی عزت بخشی ۔مولانا کے والد صاحب نے بھی اقتدار کے مزے لئے ۔مولانا صاحب ، انکے بھائی اور دوست احباب بھی عرصہ دراز سے جھنڈے والی پجارو کی عیاشی سے مستفید ہو رہے ہیں اور پھر ایسا بیان چہ معنی دارد؟
جناب الطاف حسین صاحب بھی اکثراسی قسم کے سخت بیانات دیتے رہتے ہیںلیکن اُن کے بیانات کا اتنا دکھ اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہ کام 1981 سے کر رہے ہیں ۔اُن پر علیحدگی پسندی اور جناح پور جیسے الزامات بھی لگے لیکن کسی سیاستدان میں یہ جر ءات پیدا نہ ہوئی کہ یہ الزامات اپنے قدرتی انجام تک پہنچائے جاتے۔اس سلسے میں اُن کا حالیہ بیان بھی سامنے آیا ہے جسکا سندھ میںشدید رد عمل بھی ہوا ہے ۔بلوچستان میں غریب اور بے گناہ پنجابی مزدور قتل کئے جا رہے ہیں لیکن کوئی محبِ وطن سیاستدان آگے بڑھ کر اُن کا ہاتھ روکنے کی جر ءات نہیں رکھتا نہ ہی وہاں جا کر محبِ وطن بلوچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کسی میں ہمت ہے۔ یہی کچھ طالبان کی طرف سے ہورہا ہے وہ اسوقت تک 33 ہزار مربع کلومیٹر پر قابض ہو چکے ہیں ۔9
جنوری کو ایس ایس پی کراچی چوہدری اسلم کی شہادت پر پورا ملک سوگوار ہے لیکن اب بھی ہمارے اربابِ اختیار کی نظر میں پاکستان کی سلامتی اور بقا کو کوئی خطرہ نہیں ۔ یقینا ایسے لوگ یا تو پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں یا پھر کسی مخفی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیںجس پر افسوس کے علاوہ بھلا کیا کیا جا سکتا ہے؟
ایسے نظر آتا ہے کہ پاکستان کی خدمت اب صرف غریب عوام کا ہی فرض رہ گیا ہے ۔کچھ سیاستدانوں نے تو اقتدار ہی کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اقتدار کیلئے وہ کسی حد تک جانے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔اگر اقتدار انکے پاس ہے تو حکومت بھی ٹھیک ہے اور ملک بھی سلامت ہے لیکن جب انہیں کچھ عرصہ کیلئے اقتدار سے محروم ہوناپڑتا ہے تو خطرناک قسم کے بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں جو عوام میں مایوسی اور خوف پھیلانے کا موجب بنتے ہیں 1971میں سابق مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے” جوئے بنگلہ“ کا نعرہ لگایا اور ادھر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ”اُدھر تم اِدھر ہم“ کا نعرہ بلند کیا اور پھر دونوں نے اپنے اپنے نعرے سچ کر دکھائے۔ مارے گئے مشرقی پاکستان میں سروس کرنے والے بیچارے غریب مغربی پاکستانی اور مغربی پاکستانی فوج جنہیں ہمارے عزت مآب راہبران اب بھی نفرت سے پنجابی فوج، پنجابی اسٹیبلشمنٹ یا ”توپ کا چارہ“ قرار دیتے ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان کو کسی نے اب تک سلامت اور متحد رکھا ہوا ہے تو وہ پاکستان فوج ہی ہے ورنہ نجانے یہ ملک خدانخواستہ کتنے ٹکڑوں میں تقسیم اور کس کس کو کس کس قیمت پر بیچا جا چکا ہوتا۔
یہاں یہ بات بھی میں قوم کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ آج بڑے بڑے دانشور اور پھنے خان سیاستدان مشرقی پاکستان پر باتیں کرتے ہوئے تمام الزامات فوج پر لگا دیتے ہیں لیکن میں ان ”تیس مار خان“ حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔
یہاں ایک اور بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ جناب الطاف حسین کے سندھ کی تقسیم کے بیان پر بہت سے سندھیوں نے پرجوش مظاہرے کئے ہیں ۔مستقبل کے وزیر اعظم جناب بلاول بھٹو نے بھی بیان دیا ہے کہ ”مر سوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں“بہت خوب!بڑا دلیرانہ اور حب الوطنی سے بھر پور جواب ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سندھ دھرتی پر چوٹ لگی تو ان سب لوگوں کا دل دکھا اور کمر کس کے میدان میںبھی آگئے لیکن جب پاکستان توڑنے کی باتیںہوتی ہیں تو کسی کو دکھ نہیں ہوتا ۔اسے کیا سمجھا جائے ؟پاکستان کی سلامتی پر حملوں کیخلاف سب کی زبانیں گنگ ہیں چاہے اقتدار میں ہیں یا اپوزیشن میں ۔کیا پاکستان کی حفاظت صرف فوج یا غریب عوام ہی کی ذمہ داری رہ گئی ہے جو روزانہ قربانیاں دے رہے ہیں ۔
اسوقت حالات یقیناً سخت خراب ہیں۔راہبران قوم بھی غیر مناسب اور پریشان کن بیانات دے رہے ہیں۔اُن کی سوچ یا عمل جو بھی ہو میں یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے بہادر بیٹے تا حال سلامت ہیں۔ہم انشاءاللہ اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے وطن کی بقا کے لئے جانیں قربان کرینگے۔یہ ہوس کے پجاری تو باہر اپنی اپنی جائیدادوں پر چلے جائینگے لیکن18کروڑ عوام میں سے ہر فرد پاکستان ہے۔ہم پاکستان کیخلاف اٹھنے والے بازو توڑ دیں گے کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان اور اس کی سلامتی پرقربان ہونا ہمارا سب سے بڑا اعزاز ہوگا۔