• news

وہ کارنامہ جو اک بچے نے کر دکھایا۔۔۔

ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسانہ ہو جائے
قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کے اس شعر میں آج ہماری قوم اور ریاست کی سوچ کا حقیقی عکس جھلکتا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کے بانی قائد اعظم کی سوچ یہ تھی کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچو اور پھر جب کوئی فیصلہ کر لو تو اس پر ڈٹ جائو۔ مگر آج یہ حال ہے کہ اول تو کوئی فیصلہ کیا ہی نہیں جا رہا اور جو فیصلے دبائو یا بے دلی کے ساتھ کر بھی لیئے گئے ہیں ان پر دور دور تک عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ان فیصلوں میں سے ایک طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ بھی ہے ، چھ ماہ قبل ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں تمام اہم جماعتوں نے متفقہ طور پر حکومت کو طالبان سے امن مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا مگر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس میں نہ تو حکومت کی جانب سے کوئی عملی پیش رفت دکھائی دی ہے اور نہ کوئی دلچسپی ، دوسری جانب طالبان کے حوصلے بلند سے بلند ہوتے جا رہے ہیں ، صرف گزشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی کاروائیوں پر نگاہ ڈالیں ، ہنگو میں ایک اسکول پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے ایک بہادر طالبعلم اعتزاز حسن نے اپنی جان کی قربانی دے کر ناکام بنا دیا ، کراچی میں ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کو ایک بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا ، وزیراعظم کے مشیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما امیرمقام کے قافلے سے بم حملے سے سکیورٹی اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔ پشاور کے علاقے ماشو خیل میں ہونے والے حملے میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی نائب صدر میاں مشتاق سمیت دو افراد مارے گئے ، جبکہ عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید کو بھی دہشت گردوں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں ، اسے سے پہلے طالبان نے تحریک انصاف کے رہنماعمران خان کو پولیو مہم چلانے پر دھمکیاں دی تھیں ، آج ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور ریاست گومگو کی کیفیت میں ہے ، عوام دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں ، ریاست کی فیصلہ سازی میں کمزوری سے دہشت گردوں کے حوصلے اس قدر بلند ہو چکے ہیں کہ وہ جب چاہے جسے چاہے نشانہ بنا رہے ہیں، مگر ہمارے وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا بھی مشکل ہیں اور ان کے خلاف آپریشن کرنا بھی مشکل ہے ، حکومت کی پہلی ترجیح طالبان سے مذاکرات ہیں اور حکومت اس پالیسی پر قائم رہے گی۔ مگر کون سی پالیسی ؟ کیونکہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پالیسی کا نام و نشان بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا سی لیے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور کبھی کسی ملا کو مذاکرات کی ذمہ داری دیتی ہے اور کبھی دوسرے مولوی کو سونپ دیتی ہے۔ وفاقی حکومت تو کنفیوژ ہے ہی مگر خیبر پختونخواہ حکومت کی بے حسی بھی اپنی مثال آپ ہے، وہ صوبہ جو پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے ، اور خود تحریک انصاف کے اپنے ارکین اسمبلی بھی اس کا نشانہ بن چکے ہیں مگر وہاں کی حکومت اپنے شہریوں سے کس قدر بیگانہ ہو چکی ہے کہ چھ جنوری کو  قوم اور وطن کی محبت سے سرشار اعتزاز حسن نے اپنی زندگی قربان کر کے سکول میں موجود سیکڑوں بچوں کی زندگی بچائی مگر وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے اس بہادر بچے کے والدین سے تعزیت کرنا تک گوارہ نہیں کی ، ہم نے جب بہادر اعتزاز حسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک پروگرام کیا تو اس میں شہید کے بھائی مجتبیٰ حسن نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ گلہ کیا کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے ان سے تعزیت تک نہیں کی اور ان کے کسی رکن اسمبلی نے بھی رابطہ نہیں کیا ، اس پروگرام کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو خود میڈیا کے سامنے وزیراعلی پرویز خٹک کی اس بے حسی پر افسوس کا اظہار کرنا پڑا مگر اس کے باوجود وزیراعلی ٹس سے مس نہ ہوئے اور چھ روز بعد اپنے ایک مشیر کو شہید اعتزازحسن کے گھر تعزیت کے لیے بھیج دیا اور پچاس لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کر دیا ، شاید پرویز خٹک صاحب کو اس بات کا ادراک نہیں کہ معصوم اعتزاز حسن نے پچاس لاکھ روپے کے لیے اپنی جان قربان نہیں کی تھی اس نے اپنی جان اسکول کے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے قربان کی تھی۔ اعتزاز حسن کی بہادری کا اعتراف کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جہاں ریاست اپنے شہریوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام ہو چکی ہو وہاں ایسے بہادر افراد کی قدر نہ کر کہ حکومت اپنے شہریوں کی حوصلہ شکنی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ وزیراعلی پرویز خٹک صاحب کی حکومت کا فرض تھا کہ وہ اپنے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی زندگیوں کا تحفظ کرتی مگر پرویزخٹک جو ذمہ داری نہ نبھا سکے وہ کام ایک چودہ سالہ بچے نے کر دکھایا۔ پوری قوم کو شہید اعتزاز حسن پر فخر ہے کہ وہ بچہ حکومت سے زیادہ بہادر نکلا اور ایک دہشت گرد کے سامنے دیوار بن گیا، خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی پرویز خٹک پشاور چرچ پر حملے کے بعد بھی وہاں نہ پہنچ سکے تھے اور انہوں نے ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں اپنی اس کوتاہی کا اعتراف بھی کیا تھا ، مگر جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار پشاور چرچ کے دورے پر گئے تو پھر وزیراعلی وہاں پہنچے اور جب وزیرداخلہ وہاں سے رخصت ہونے لگے تو وزیراعلی خیبرپختونخواہ نے بھی وہاں مزید رکنا گوارہ نہ کیا اور وزیرداخلہ سے درخواست کی کہ مجھے بھی اپنے طیارے میں واپس اسلام آباد لے چلیں اوران کے ساتھ ہی اسلام آباد میں اپنی محفوظ پناہ گاہ میں واپس آگئے۔ اب ایک بار پھر انہوں نے اپنے صوبے کے ایک بہادر طالبعلم جس کے کارنامے کو ساری دنیا میں سراہا جا رہا ہے اسکی شہادت پر بھی اسی سنگین بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے اس رویے نے ان کے صوبے کے شہریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کی حکومت نے انہیں دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور اب نہ صرف انہیں اپنی زندگیوں کا تحفظ خود کرنا ہو گا بلکہ حکومت سے کسی قسم کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ کیونکہ حکومت کو صرف اپنے تحفظ کی فکر ہے۔  آج کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ بزدل کون ہے اور بہادر کون؟ کم از کم چودہ سالہ اعتزاز حسن نے تو ہم سب کو یہ سمجھا دیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن