• news

بحرین کا بحران

بحرین میں حکومت اور احتجاجی سیاسی گروہوں کے مابین گذشتہ تین برس سے جاری مذاکرات ایک بار پھرتعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔حکومت کے مخالفین کی جانب سے مذاکرات کے بائیکاٹ کی فوری وجہ الوفاق پارٹی کے سربراہ خلیل المرذوق کے سے چند مقبولِ عوام رہنمائوں کی گرفتاری ہے۔یہ مذاکرات اب سے تین برس پہلے عرب بہار (Arab Spring) کے آغاز پر 2011ء میں اُس وقت شروع ہوئے تھے جب سیاسی اصلاحات کے مطالبات نے عوامی احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔سلطانیِٔ جمہور کی خاطر جہدآزما گروہوں کا سب سے بڑا مطالبہ خاندانی بادشاہت کی بجائے آئینی حکومت کا قیام اور عوام کے منتخب نمائندوں میں سے وزرا کا تقررہے۔ بحرین کی امریکہ نواز خاندانی بادشاہت 1783ء میںقائم ہوئی تھی۔ آج کل شاہ حماداِس الخلیفہ خاندانی بادشاہت کے سربراہ ہیں جن کے احکامات کے مطابق گذشتہ تین برس سے آئینی مذاکرات بھی جاری ہیں اور تعزیر و احتساب کے روز بروز شدید سے شدیدتر ہوتے چلے جانے والی قانون سازی بھی زوروں پر ہے۔ اِن قوانین کے تحت’’ شرپسندوں ‘‘کی قومیت تک منسوخ کی جا رہی ہے۔
بحرین خلیج کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کی سب سے بڑی قوّت امریکہ کا وہ پانچواں بحری بیڑہ ہے جویہاں مستقلاً لنگرانداز ہے۔اپنے والد کی وفات کے بعد 1999ء میں شیخ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ اپنے والد کا جانشین بنا تھا۔ شیخ حماد نے آغازِ کار ہی سے سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کا عمل شروع کر دیا تھا۔ اُنہی کے عہد میں پارلیمنٹ وجود میں آئی ۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا اور یوں بتدریج محدود پیمانے پر عوامی نمائندگی کی اہمیت تسلیم کی گئی۔ اِس کے باوجود بحرین کے عوام کی اکثریت خاندانی بادشاہت کی مخالف ہے۔ بائیں بازو کی سیاست عرب قوم پرستی کی سیاست ہے۔ دائیں بازو کے سیاسی گروہ اخوان المسلمون سے وابستہ اور یوں اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر جہد آزما ہیں۔ 1977ء میں ہادی المدرسی نے لندن میں اسلامی محاذِ آزادی کی داغ بیل ڈال کر اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔اِس محاذِ آزادی کو لبنان اور عراق کی شیعہ تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ 1982ء سے بحرین فریڈم موومنٹ سرگرمِ عمل ہے۔ یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ شیخ حماد کی تخت نشینی کے بعد سیاسی اصلاحات اور شخصی آزادی کی جانب پیشرفت جاری ہے۔ شراب نوشی پر کوئی کڑی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اِسی طرح سے خواتین اپنی پسند کامغربی لباس پہن سکتی ہیں۔ شاید یہ آزادہ روی امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کی ’’برکت‘‘ ہے۔ سیاسی اور معاشرتی سطح پر شیعہ اور سُنّی مسالک کے مابین رقابت بھی اسی بیڑے کی موجودگی کے باعث زوروں پر ہے۔
علامہ اقبال نے اپنے زمانے کی دُنیائے اسلام کی دلخراش صورتحال کا تجزیہ کرتے وقت حکمتِ مغرب کو سمجھنے کی تلقین کی تھی۔ اُنکے خیال میں دُنیائے مغرب کی سیاسی اور تمدنی حکمتِ عملی نے عالمِ اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ صورتحال اب بھی جوں کی تُوں ہے۔ بحرین کی سی چھوٹی سی ریاستوں کے اندر بھی مسلمانوں کوباہم دست و گریباں فرقہ وارانہ گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا گیا ہے چنانچہ جب بھی بحرین کی آبادی کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے ۔اِسکے برعکس یہ بتایا جاتا ہے کہ یہاں اتنے فیصد شیعہ اور اِتنے فیصد سُنّی آباد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دو فرقوں میں عقیدہ و عمل کا زبردست اشتراک نمایاں ہے۔ بس ذرا ذرا سے فروعی اختلافات ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے شیعہ بھائی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور ہم سُنّی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اب اِس ذرا سے تنوع کو بہت بڑے اختلاف کا رنگ دیدیا جاتا ہے اور یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ شیعہ ، سُنّی ہر دو بھائی نماز پڑھتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اِسے اپنے درج ذیل شعر میں اُمّتِ مسلمہ کو خبردار کیا تھا کہ توحید و رسالت کے عقائد پر باہم متفق بھائیوں کو آپس میںلڑانے کی اسلام دُشمن حکمتِ عملی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش
افسوس ، صد افسوس کہ ہم نے علامہ اقبال کی حکمت سے کچھ نہیں سیکھا ‘نتیجہ یہ کہ ہم نے مغربی حکمتِ عملی کے زیرِاثر اپنے اصل دشمن کو اپنا دوست اوراپنے مسلمان بھائی کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے اور یوںہم دُنیائے اسلام پر سامراجی تسلط کو پائیدار بنانے کے عمل کو اسلام کی خدمت سمجھنے لگے ہیں۔بحرین میں بھی ہمیں یہی صورتحال درپیش ہے۔  جاننا چاہیے کہ آج کے بحرین میں اصل کشمکش مسلمانوں کے شیعہ اور سُنّی مسالک کے درمیان ہر گز نہیں۔ اصل کشمکش خاندانی بادشاہت اور عوامی جمہوریت کے درمیان برپا ہے۔  جب تک خاندانی بادشاہت پانچویں بحری بیڑے کو اپنی طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر سلطانیِٔ جمہور کے قیام کے مطالبات کا سامنا مذاکرات کی میز پرکرنے کی بجائے ریاستی دہشت گردی سے کرنے پر مُصِر رہے گی بحرین کا یہ سیاسی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جائیگا۔ بحرین کی سیاست کا تذکرہ کرتے وقت ہمیشہ یہاں کے باشندوں کو مسلمان کی بجائے شیعہ اور سُنّی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں کے ساٹھ سے پچھتر فیصد اہل ِ تشیعوں کو لبنان کی حزب اللہ اورعراق کی شیعہ سیاسی تحریکیں اپنا دست و بازو قرار دیتی ہیںاور باقی ماندہ اہلِ سنّت مسلمانوںکو اخوان المسلمون کے زیرِ اثر بتایا جاتا ہے۔ یہ بحرین کی سیاسی کشمکش کی سراسر غلط تعبیر ہے۔عالمی سامراج کے مفیدِ مطلب یہ تعبیر مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ اِس نفاق کو اتفاق میں بدلنے کا گُر قائداعظم محمد علی جناح اور امام خمینی کے سے رہنما جانتے تھے۔ جب پاکستان کا قیام ناگزیر ہو کر رہ گیا تھا تب کوئی نہ کوئی پاکستان مخالف صحافی پریس کانفرنسوں میں بانیء پاکستان سے یہ سوال ضرور پوچھتا تھا کہ آپ شیعہ ہیںیا سُنّی؟قائداعظم جواب میں ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ ایران کے اسلامی جمہوری انقلاب کے فوراً بعد کوئی نہ کوئی مغربی صحافی امام خمینی سے یہ سوال ضرور کرتا تھا کہ آپ ایران میں کون سا اسلام نافذ کرینگے؟ شیعہ یا سُنّی؟اِسکے جواب میں امام خمینی ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ اسلام ایک ہے۔ ہم یہاں محمد مصطفی ؐ کا اسلام نافذ کرینگے۔
توقع رکھنی چاہیے کہ بحرین کی حکومت عقیدہ و عمل میں تفسیر و تعبیر کے فروعی اختلافات کی بجائے وسیع تر بنیادی اشتراک کو مدنظر رکھتے ہوئے مخالف سیاسی گروہوں سے آئینی مذاکرات پھر سے شروع کر دے گی اور یوں تیونس کی مانند یہاں بھی تعطل ٹوٹے گا، مذاکرات کا عمل آگے بڑھے گا اور ایک جدید سیاسی نظام تشکیل پا سکے گا۔

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر-دی نیشن