بلوچستان اسمبلی: دو قراردادیں منظور، لوکل گورنمنٹ کا ترمیمی مسودہ قانون پیش نہ کیا جا سکا
بلوچستان اسمبلی: دو قراردادیں منظور، لوکل گورنمنٹ کا ترمیمی مسودہ قانون پیش نہ کیا جا سکا
کوئٹہ (آن لائن) بلوچستان اسمبلی نے 2 قراردادیں اور تحفظ و فروغ شیر مادر سے متعلق تحریک متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتے کو ڈپٹی سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں نصف گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر صحت میر رحمت صالح بلوچ نے صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی، یاسمین لہڑی اور ڈاکٹر شمع اسحاق بلوچ کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان جو ملک کی ایک بڑی سرکاری نیوز ایجنسی ہے جس کی مختلف زبانوں میں خبروں کی سروس ہے مگر بلوچی زبان میں نہ کوئی خبر جاری ہوتی ہے اور نہ ہی کسی بلوچ کو بھرتی کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت ادارے کو بلوچی زبان میں خبریں جاری کرنے کا پابند بنائے۔ ایوان نے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال، سردار رضا محمد بڑیچ، آغا سید لیاقت علی، عبدالمجیدخان اچکزئی، محترمہ سبوژمئی اچکزئی کی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کرتے لیاقت علی آغا نے کہا کہ صوبے میں پانی کی قلت کی صورتحال روز بروز خطرناک ہوتی جا رہی ہے صوبے میں سیلابی پانی کی مقدار 14سے16ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے جبکہ صوبے میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف چند لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔ وفاقی حکومت صوبے کے بارانی پانی کوذخیرہ کرنے کیلئے وافر فنڈز فراہم کرے تاکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، آغا لیاقت علی، اپوزیشن لیڈر مولاناعبدالواسع، صوبائی وزیر رحمت صالح بلوچ، سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ یہ قرارداد واقعی اہمیت کی حامل ہے۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا کہ قرارداد مناسب ہے اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے اسے اسی صورت منظور کیا جائے۔ بعدازاں یہ قرارداد بھی اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی اجلاس میں بلوچستان لوکل گورنمنت کا ترمیمی مسودہ قانون مسدرہ 2014ءپیش نہ کیا جا سکا۔ صوبائی وزیر بلدیات سردار مصطفی خان ترین نے کہا کہ بل میں کچھ ٹیکنیکل غلطیاں ہیں جنہیں درست کرکے بل آئندہ اجلاس میں پیش کر دیا جائے گا جس پر ڈپٹی سپیکر نے بل آئندہ اجلاس تک موخر کرنے کی رولنگ دی۔ اجلاس میں مشیر تعلیم کی غیرموجودگی کے باعث صوبائی وزیر ڈاکٹرحامد خان اچکزئی نے بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار کے ایکٹ مجریہ1994ءکی شق20 کی ذیلی شق (1)(2)کے تحت دو ارکان اسمبلی کے انتخاب سے متعلق تحریک پیش کی جس کے تحت بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار کی سینڈیکیٹ کیلئے نواب ثناءاللہ خان زہری اور سردار اسلم بزنجو کو سینڈیکیٹ کا رکن منتخب کرنے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ سینڈیکیٹ میں عوامی نمائندگی نہیں تھی لہذا ان دو ارکان کو مقرر کیا گیا ہے اگر اپوزیشن مزید ایک رکن شامل کرانا چاہتی ہے تو اس کیلئے الگ سے ترمیم لائے تاہم قرارداد ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لی۔ وفقہ سوالات کے دوران ڈپٹی سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا وفقہ سوالات میں وزراءکو آنا چاہئے جبکہ بعض سوالات کے جوابات بھی نہیں آئے۔ یہ جوابات بھی آنے چاہئیں۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا کہ یہ سوالات اس دور کے ہیں جب کابینہ نہیں بنی تھی۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ آئندہ اجلاسوں میں تمام سوالات کے جوابات آئیں گے اور وزراءاس دوران ایوان میں موجود رہیں گے۔ اجلاس میں حاجی گل محمددمڑ، نوابزادہ چنگیز مری، سردار سرفراز ڈومکی، سردار اسلم بزنجو، میر اظہار کھوسہ اور حاجی محمد خان لہڑی کی رخصت کی درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے زیراہتمام کراچی میں ایک نجی میڈیا گروپ کے تین کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہفتے کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے صحافیوں نے واک آﺅٹ کیا۔ صوبائی وزراءکی یقین دہانی پر صحافیوںنے واک آﺅٹ ختم کر دیا۔
بلوچستان اسمبلی