• news

سوات سے وزیرستان تک جرنیل بمقابلہ فضل اللہ

بنوں اور پنڈی میں فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اب تو یہ مسلسل ہونے لگا ہے۔ مذاکرات کی حکومتی پیشکش کا یہ جواب ہے کہ ہمیں سوال بھی بھول گئے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ سوات والی کہانی کے دہرانے کا وقت آ گیا ہے۔ سوات میں زندگی درندگی کے ہاتھوں شرمندگی بن گئی تھی۔ مذاکرات ہوئے اور ناکام ہوئے۔ اب تو مذاکرات سے پہلے ہی ناکامی ہماری بدنامی بنتی جا رہی ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں مگر ہماری حالت حالت زار ہے۔ اسے حالت غیر بھی کہا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بیرونی طاقتیں سب کچھ کروا رہی ہیں۔ مگر کرتے تو ہم خود ہیں۔ ہم ظالم بھی خود ہیں مظلوم بھی ہم خود ہیں۔
سوات میں بھی دہشت گردوں کا سربراہ مولوی فضل اللہ تھا وہ سواتی طالبان کا بھی سربراہ تھا۔ پاک فوج نے بڑی معرکہ آرائی اور بہادری سے دشمنوں کا قلع قمع کیا۔ اب اسے تحریک طالبان کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ شخص حکیم اللہ محسود سے بھی ظالم ہے۔ حکیم اللہ محسود کے لئے معاذاللہ ’’شہید‘‘ کا وہم پھیلانے والے بتائیں کہ فضل اللہ تو سوات میں بچ گیا تھا اور بھاگ گیا وہ خدانخواستہ ’’غازی‘‘ بھی نہیں ہے۔ ہتھیار بھی اُس نے نہیں ڈالے۔ صرف یہ کیا کہ بھاگ گیا۔ اسے افغانستان میں پناہ ملی۔ ہم سے اس کے خلاف آپریشن کرایا گیا اور خود اسے سنبھال کے رکھا پاکستان میں کئی کارروائیوں میں اس کے ملوث ہونے کی بات کی گئی۔ بارودی سرنگ پھٹنے سے میجر جنرل نیازی شہید ہوئے تو سرنگ کے آخر میں بیٹھا ہوا مولوی فضل اللہ صاف نظر آ رہا تھا۔ شہید جنرل نیازی ڈھاکے والے جنرل نیازی سے مختلف ہے۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ فضل اللہ افغانستان میں ہے یا شمالی وزیرستان میں ہے۔ بیرونی طاقتیں اُسے جہاں سے کامیابی کے ساتھ استعمال کر سکیں گی۔ وہیں رکھیں گی۔ بھارت کے بعد اب بیرونی طاقتوں میں افغانستان بھی شامل ہو گیا ہے۔ بھارت اور افغان حکومت کا ایجنڈا پاکستان کے حوالے سے ایک ہے۔ نیٹو فورسز اور امریکہ کا ایجنڈا بھی یہی ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ ہم خود اپنے خلاف ہیں۔ اب پھر وقت آ گیا ہے کہ سوات جیسی فوجی کارروائی کی جائے۔ مگر اب مولوی فضل اللہ کو بھاگنے کا موقعہ نہ ملے۔ وہ افغانستان میں ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ اب حالات ایسے بنائے جائیں کہ اس کے لئے وہاں سے بھی راہ فرار اختیار کرنے کا راستہ نہ ہو۔ وہ لازماً بھارت کی طرف بھاگ کے جائے گا۔ پھر بھی پاکستانی حکمران بھارت دوستی کے ترانے گائیں گے۔
مولوی فضل اللہ کا تحریک طالبان کا سربراہ بنائے جانے کا ایک اشارہ یہ ہے کہ مذاکرات ایک سیاسی کھیل ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاک فوج مولوی فضل اللہ کے معاملات سے واقف ہے۔ اس کی دوسری شکست ضرورت ہے اور یقینی ہے۔ بس یہ دھیان رکھا جائے کہ وہ بچ کے نہ نکل جائے۔ پھر اسے تیسری بار بھی شکست دینا ہو گی۔ تیسری بار اقتدار کی روایت پاکستان میں پکی ہو گئی ہے۔ تحریک طالبان کا سربراہ بنایا جانا بھی اقتدار کی ایک شکل ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے لئے یہ مہربانی ہے تو پھر طالبانوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ سوات میں آپریشن کے لئے اتنا سیاسی شور و غل نہیں مچایا گیا۔ تب مذاکرات ہوئے تھے۔ اب کیوں نہیں ہو رہے؟ کون نہیں ہونے دیتا۔ آپریشن کے لئے گومگو کیا ہے۔ جو کرنا ہے یکسوئی سے کریں۔ دل لگا کے کریں۔ متحد ہو کے کریں۔ پاک فوج کو اپنا کام کرنے دیں۔ فوج کو سیاسی پارٹی کی طرح ڈیل نہ کریں۔ جرنیلوں کے ساتھ سیاستدانوں کی طرح بات نہ کریں۔
حکیم اللہ محسود کو ڈرون سے مارا گیا۔ اب فضائی حملوں کی پالیسی پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ طالبان بھی عجیب ہیں کہ انہیں مارتا تو امریکہ ہے مگر یہ بدلہ پاکستان سے لیتے ہیں بھارت پر اپنا غصہ کیوں نہیں دکھاتے۔ بھارت بھی تو امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ ہے۔ امریکہ ان دونوں پر بہت اعتبار کرتا ہے۔ پاکستانیوں کی قربانیوں کو بھولی ہوئی کہانیوں کی طرح سمجھتا ہے۔ ہمارے حکمران نااہل ہیں۔ دوستی اور غلامی میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ ورنہ امریکہ کیوں بھارت کی طرف دیکھتا۔ ذلیل و خوار ہم ہو رہے ہیں اور نوازشیں بھارت کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ میر تقی میر کا یہ شعر پاکستانی حکمرانوں کو سنایا جائے۔
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
شعر میں غیرت کا لفظ سینکڑوں برس پہلے میر نے استعمال کیا تھا۔ پاکستان کی ’’غیرت لابی‘‘ کا اِس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری دوستی اور نیازمندی میں کوئی گڑبڑ ضرور ہے کہ پاکستان ایک ناقابل اعتبار ملک بن گیا ہے۔ پوری دنیا ہمیں ایک دہشت گرد ملکی سمجھتی ہے۔ کسی ملک میں پاکستانی ایک مشکوک اور متنازعہ آدمی بن کے رہ گیا ہے۔ امریکی ائرپورٹ پر پاکستانی تذلیل اور توہین کی انتہائوں کے بعد بھی سر جھکا کے امریکہ کی سیر کو چلے جاتے ہیں بھارت اپنے ایک آدمی کی پریشانی کے لئے جو کچھ کرتا ہے۔ امریکہ کو نانی یاد آ جاتی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ بھارت کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے اور ہم امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے؟
قرض اور امداد لے کے عام پاکستانیوں کے حالات کچھ تو بدلتے۔ اس کے بعد زیادہ عذاب آ گیا ہے مگر حکمران کچھ اور خوش و خرم ہو گئے ہیں۔ جو قرض اور امداد حکمرانوں نے لی ہے۔ وہ کہاں گئی ہے؟ مہنگائی لوڈشیڈنگ وغیرہ کے ساتھ دہشت گردی لاقانونیت اور عدم تحفظ کی فضا میں لوگ کب تک زندہ رہ سکیں گے۔ ہمارا میڈیا بُرے واقعات کی فلمیں سارا سارا دن چلاتا ہے۔ لوگ نیم پاگل ہوتے جا رہے ہیں اور نیم پاگل بہرحال پاگل سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
بنوں میں جو حادثہ ہوا۔ ایک پرائیویٹ گاڑی فوجی گاڑیوں کے قافلے میں شامل ہو گئی۔ اس میں بارود تھا۔ وہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پھٹا اور 25 فوجی جوان اور افسران شہید ہوئے۔ اس گاڑی کو چیک کرنا سول انتظامیہ کا فرض تھا۔ اس کے بعد اسے چیک کرنا فوج والوں کا بھی کام تھا؟ جنرل راحیل ان باتوں پر غور کریں گے۔ وہ بنوں کے سی ایم ایچ پہنچے۔ پنڈی میں شہیدوں کے جنازے میں شامل ہوئے۔ مگر وہ واقعات کے اندر واقعات کے بارے میں بھی سوچیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حکمران تو ایسے واقعات کے عادی ہو گئے ہیں مگر جرنیلوں کو یہ عادت نہیں پڑنی چاہئے۔
جنرل راحیل شریف کی نمائندگی کراچی میں شہید ایس پی چودھری اسلم کے لئے کور کمانڈر کراچی نے کی۔ شہید ایس پی کے لئے بھی بڑی پلاننگ کی گئی تھی جو سازش کی طرح ہے۔ اس کے اثرات فوری طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔ نوازشریف نے اپنا بیرونی دورہ منسوخ کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ کیا عام آدمیوں کے لئے ایسا واقعہ ہوتا تو نوازشریف اپنا دورہ منسوخ کرتے؟ انہوں نے جنرل شریف سے فون پر بات بھی کی ہے۔ کیا بات ہوئی؟ اخبارات میں کچھ آیا ہے مگر اندر کی بات کیا ہے۔ اس حوالے سے چودھری نثار کی پالیسی کیا ہے؟ ہمارے اہداف کیا ہیں۔ مگر ہم جن بیرونی طاقتوں کا نام لے کے خود کو بچانا چاہتے ہیں اُن کے اہداف بہت واضح ہیں۔
میرا بھی جی چاہتا ہے کہ جنرل راحیل شریف سے تعزیت کروں۔ ہمارے جو سیاستدان اور حکمران ہیں وہ کسی خون آلود واقعے میں شہید ہونے والوں کے لئے تعزیتی بیان دیتے ہیں۔ یہ بیان دے کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے نوازشریف چودھری نثار، عمران خان، مولوی فضل الرحمن، الطاف حسین، منور حسن، آصف زرداری، بلاول زرداری، پرویز خٹک وغیرہ وغیرہ کے بیانات میں زیر زبر کا فرق بھی نہیں ہے۔ یہ بیانات ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ ان تعزیتی اور مذمتی بیانات پر پابندی لگائی جائے۔
کوئی کچھ بھی نہیں کرتا۔ مذاکرات کی بات بھی ایک سیاست ہے۔ چودھری نثار کا فرض تھا کہ کچھ کرتے۔ دوسروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ سمیع الحق کیا کریں گے۔ حکومت ایک طرف بیٹھ جائے تو کیا ہو گا۔ عمران خان بھی صرف سیاست کر رہا ہے۔ ان سب کی کوشش ہے کہ جنرل راحیل شریف سے بھی سیاست کرائی جائے؟

ای پیپر-دی نیشن