حکومت کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرا دی: قمر زمان کائرہ
لاہور (خبر نگار) پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور اس کی قیمت بھی ادا کی ہے۔ بے نظیر بھٹو جیسی قائد سے محروم ہوئے ہیں۔ حکومت کو ایک سے زائد بار دہشت گردوں سے نبٹنے میں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ اس معاملے پر حکومت کا مکمل ساتھ دینگے۔ نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری نے بار بار میاں نواز شریف کو دہشت گردوں سے نبٹنے کے معاملے میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ اپنی مدت صدارت پوری ہونے پہ پہلے ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں وزیراعظم نواز شریف سے دو ملاقاتوں، مدت صدارت ختم ہونے کے آخری دن 8 نومبر کو لاہور میں اپنے خطاب کے دوران آصف زرداری نے واضح الفاظ میں دہشت گردوں سے نبٹنے کیلئے میاں نواز شریف کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ انہوں نے 27 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزار پر لاڑکانہ میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ حکومت جب بھی دہشت گردوں سے نبٹنے کیلئے کوئی اجلاس بلائے گی اور دعوت دے گی تو ضرور شرکت کرینگے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) خواجہ ضیاء الدین نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے نبٹنے کیلئے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ تمام ایجنسیوں کو آپس میں بہتر رابطہ اور تعاون کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے سے انٹیلی جنس کا تبادلہ کرنا ہو گا۔ تبھی دہشت گردوں سے بہتر انداز میں نبٹا جا سکے گا۔ دہشت گردوں سے نبٹنے کیلئے حکومت کو اپنی ’’رٹ‘‘ قائم کرنا ہو گی۔ مذاکرات کی پیشکش کمزور کیا کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کمزور نہیں ہے مگر بار بار مذاکرات کی پیشکش کمزوری ظاہر کرتی ہے۔ نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردوں سے سختی سے نبٹے، جو دھماکے کر کے معصوم افراد اور ایجنسیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ان سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں کرنی چاہئے۔ سابق دور حکومت میں حکومت نے انٹیلی جنس اداروں کے فنڈز کم کر دیئے تھے، اب یہ بہتر ہو رہے ہیں، اس سے یقیناً فائدہ ہو گا۔ حکومت یہ بھی دیکھے کہ دہشت گردوں کو ڈیٹونیٹر اور طاقتور ایکسپلوسو کہاں سے سپلائی ہوتے ہیں اور کونسا ہمسایہ ملک اس میں ملوث ہے۔ فاٹا میں بلدیاتی الیکشن کرا دیئے جائیں۔ جو نئی قیادت سامنے آئے اس سے بات کی جائے۔