اوگرا کیس : قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کا پیچھا کرنا چاہتے ہیں‘ نیب بے بس ہے تو بتا دے : جسٹس جواد
اوگرا کیس : قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کا پیچھا کرنا چاہتے ہیں‘ نیب بے بس ہے تو بتا دے : جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے اوگرا کرپشن کیس میں ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے نیب کو ایک دن کی مہلت دے دی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ پہلے معاملہ 82 ارب روپے کا تھا ہوسکتا ہے تحقیقات کے بعد رقم اس سے بھی زیادہ ہو جائے، عدالت نے نیب کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے عدالت نے کورٹ اور نیب کے دائر اختےار کے بارے میں پراسیکیوٹر جنرل نیب اوراٹارنی جنرل سے آئینی و قانونی وضاحت طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اوگرا عملدرآمد کیس کی سماعت کی تو چیئرمین نیب قمر زمان چودھری عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور موقف اخیتار کیا کہ نیب کے پاس صرف اوگرا نہیں بلکہ اور بھی ہائی پروفائل کیسز ہیںنیب تمام مقدمات میں تحقیقات کو نیتجہ خیز بنانا چاہتی ہے اوگرا کیس میں نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس طلب کر لیا ہے ذمہ داروں کا تعین بھی نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کر لیا جائیگا۔ ایک ریفرنس دائر ہوچکا ہے باقی معاملات بھی طے کئے جاچکے ہیں صرف اس حوالے سے فیصلہ ہونا باقی ہے اوگرا کیس بڑے سکینڈلز میں سے ایک ہے، کیس پر دن رات کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جاری کئے گئے احکامات اور ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے گا۔ نیب کے پراسیکوٹر کے کے آغا نے عدالت سے کیس کے ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے ایک دن مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ بہت حد تک معاملات مکمل ہوچکے ہیں اب صرف چیئرمین نیب کے احکامات کی ضرورت تھی اس پر عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس حوالے سے دلائل دیں کہ نیب حکام کو سپریم کورٹ سمیت کوئی عدالت کسی طرح کے احکامات جاری نہیں کرسکتی؟ کےا سب اختیار صرف چیئرمین نیب کا ہی ہے؟ جسٹس جواد نے کہا کہ نیب نے آج تک کچھ نہیں کیا ہم نے ان کے پیچھے جانا ہے جنہوں نے قوم کا پیسہ لوٹا ہے ہم پولیس یا ایف آئی اے سے تحقیقات کرالیں گے۔ نیب 26 ماہ سے سویا ہوا ہے۔ کے کے آغا نے کہا کہ یہ کیس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چیئرمین اور پراسیکیوٹر کے موقف میں تضاد ہے۔ چیئرمین کہتے ہیں کہ سماعت کا اختیار ہے جبکہ پراسیکیوٹر ہمیں کہہ رہے ہیں کہ آپ سماعت نہیں کرسکتے تاخیر کا ذمہ دار کون ہے۔ نیب بے بس ہے تو بھی عدالت کو آگاہ کر دیا جائے۔ یہ عوام کا پیسہ ہے اس کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیں گے تاکہ ذمہ داروں کا پتہ چل سکے۔ ہم کیس کو منطقی انجام تک پہچانا چاہتے ہیں، نیب حکام راضی ہیں تو رات تک عدالت لگا سکتے ہیں۔ چیئرمین نیب نے اعتراف کیا کہ 25 نومبر 2011ءکے حکم پر عملدرآمد نہی ہوا۔ نیب کے پراسیکیوٹر کے کے آغا نے عدالت سے کیس کے ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے ایک دن کی مہلت کی استدعا کی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ 36 ہفتے گزر چکے ہیں ابھی تک یہ نہیں پتہ چل سکا ذمہ دار کون ہے۔ نیب اگر بے بس ہے تو عدالت کو آگاہ کر دیا جائے۔ نیب حکام راضی ہیں تو رات تک عدالت لگا سکتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ قانونی نکات پر اٹارنی جنرل کے دلائل بھی آج سنیں گے۔ ہم نے ان کے پیچھے جانا ہے جنہوں نے قوم کا پیسہ لوٹا ہے۔ انہوں نے چیئرمین نیب کو آج پوری تیاری کے ساتھ دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کی۔ دوران سماعت جسٹس جواد نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق 45 دن میں تحقیقات ہونا تھیں 26 ماہ گزر گئے ابھی تک پیشرفت نہیں ہوئی ذمہ دار کون ہے، 83 ارب روپے کی کرپشن کا کہا جا رہا ہے ممکن ہے معاملہ کھربوں کا ہو۔ جتنی مہلت دے سکتے تھے دیدی ہے۔ عدالت نے احکامات کی یقین دہانی پر چیئرمین نیب کو 24 گھنٹے کی مہلت دیدی مزی سماعت آج ہو گی۔
اوگرا کیس