ظالم اور مظلوم ۔۔ لازم و ملزوم
اصغر ندیم سید پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا اب تو اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ہے سوچے سمجھے ہو رہا ہے کیا قاتلوں کو معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کیا ظالموں کو پتہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مظلوموں کو بھی معلوم نہیں ہے۔ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ وہ جو حکومت کر رہے ہیں تو یہ کیا چیز ہے۔ اس ملک کے محکوم تو آغاز سے ہی ایک بے کار مخلوق بنا دیئے گئے ہیں۔ جبکہ وہ بے کار نہیں ہیں۔ محکوم جو مظلوم بھی ہیں اور محروم بھی ہیں اب مرحوم محروم سے اچھا ہے۔ ظالم و مظلوم لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ ظالم بھی ہم خود ہیں مظلوم بھی خود ہیں۔ اصغر ندیم سید ایک معروف ادیب شاعر اور مشہور ڈرامہ نگار ہے اور محنتی آدمی ہے عمر بھر اپنے کام سے کام رکھا ہے۔ بے ضرر انسان وہ ایسی فطرت کا آدمی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچا نہیں سکتا۔ وہ اگر دہشت گردی کا شکار ہوا ہے تو یہ خطرناک ہے وہ شیعہ ہونے کے لئے بھی معروف نہیں ہے۔ کسی باہر کے میڈیا پر آیا ہے کہ اس نے کوئی ڈرامہ دہشت گردی کے حوالے سے لکھا تھا۔ یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ یہ ہمارا قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس پر گفتگو ہوتی ہے۔ تحریریں بھی لکھی جاتی ہیں اصغر ندیم سید پر حملہ افسوسناک ہے اور خطرناک بھی ہے۔ ہم لکھنے پڑھنے والے آخر کہاں جائیں۔ نہ سکیورٹی نہ تحفظ‘ جب تک زندگی ہے تو وہ گزارنا ہی پڑے گی۔ زندگی اب شرمندگی اور درندگی کے درمیان ہانپ رہی ہے کانپ رہی ہے۔ اصغر ندیم سید کو ایسی زندگی کی مبارکباد بھی نہیں دی جا سکتی۔ ایسے ہی حملے میں ادیب شاعر استاد بہت دوست ڈاکٹر شبیہ الحسن بھی شہید ہوا تھا۔ اللہ نے اصغر کو بچا لیا ہے۔ اللہ اسے سلامت رکھے۔ سب کی حفاظت کرے۔ میں نے اسے فون کیا ہے مگر فون بند ہے اس کے ساتھ کئی بار بات ہوئی ہے۔ اللہ کرے یہ بات ہوتی رہے۔
استاد دامن کا شعر یاد آگیا ہے۔ ہم دامن پھیلائے ہوئے کھڑے ہیں نجانے کیا ہے کہ اتنی بھیک پانے کے باوجود ہماری جھولی (خزانہ) خالی ہے۔ صرف حکمرانوں سیاستدانوں اور ایسے ہی امیر کبیر لوگوں کے بنک بھرے پڑے ہیں۔ وطن سے باہر بھی اپنا بہت پیسہ پڑا ہے۔ ہم خود کیوں اپنے آپ کو بھیک نہیں دیتے۔ جتنا پیسہ ہم نے لوٹ مار کرپشن نوسربازی ہیرا پھیری سے اکٹھا کیا ہے کہ اب ہم چاہیں تو خود اپنے آپ کو بھیک دے سکتے ہیں۔
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
ترجمہ:۔ ہم یہاں کیسے زندگی گزاریں یہ سوچتے سوچتے ہم خود گزر چلے ہیں۔ اس کا جواب منیر نیازی نے دیا۔
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
یہ کون ہے کہ ہماری عمریں بھی بسر کر گیا ہے۔ ہمارے خواب ہماری خواہش انہوں نے قدموں تلے روند ڈالیں۔ یہ ’’اس‘‘ کون ہے۔ اس کو سب جانتے ہیں مگر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ آگے چل کر غزل میں منیر نیازی نے اپنے دکھ کو ریاست کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
حکومت خاموش کیوں ہے۔ لاپروائی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ان مظاہروں سے زیادہ خطرناک ہے جو ہر روز ہوتے ہیں۔ ہر روز دہشت گردی ہوتی ہے اور صرف تعزیتی اور مذمتی بیانات دیئے جاتے ہیں اور بس؟ دہشت گردی تو پہلے سے تھی۔ لوڈشیڈنگ مہنگائی لا قانونیت وغیرہ وغیرہ۔ کسی مسئلے کی طرف مسلم لیگ ن کی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ کوئی فیصلہ نہیں کیا کوئی پروگرام نہیں بنایا۔ نواز شریف کی حکومت نے صرف دو کاموں کی طرف پوری توجہ رکھی ہے۔ ایک یہ کہ قرضے اور امداد بیرون ملک سے کیسے حاصل کرنا ہے اور دوسری یہ کہ بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔ ان دونوں باتوں میں کسی دوسری بات کی پروا نہیں کی گئی۔ یہ دونوں باتیں ملک کے لئے مہلک ہیں۔ اس کے لئے میں الگ کالم تحریر کر رہا ہوں۔ کئی کالم لکھے جا چکے ہیں مگر…؟
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین مولانا شمیم کی صدارت میں ہوا۔ جس میں تحفظ پاکستان آرڈیننس کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے اختلافی نوٹ اس میں شامل کیا ہے۔ تحفظ پاکستان کا آرڈیننس بھی متفقہ طور پر منظور نہیں ہو سکتا۔ کس ’’انداز‘‘ کا یہ آرڈیننس ہے۔ یہ کیسا تحفظ ہے۔ کوئی شخص اور کوئی ادارہ یہاں محفوظ نہیں ہے۔ نبیل گبول نے قائمہ کمیٹی میں کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور سینکڑوں پاکستانی مارے جا چکے ہیں۔ یہ گومگو کیا ہے؟ یہ دوغلی اور دہری پالیسی کیا ہے۔ کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں وزیر داخلہ شریک ہیں نہ سیکرٹری داخلہ ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ دونوں حضرات کیا کر رہے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ وزیر داخلہ چودھری نثار کراچی میں شہید ایس پی چودھری اسلم کے لئے نہیں پہنچے بلکہ مسلم لیگ ن اور وفاقی حکومت کا کوئی نمائندہ نہ تھا۔ ایک دلیر اور اہل پولیس افسر کی شہادت ایک معمہ بنی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک سوال ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کے اندر جواب موجود ہے۔
نواز شریف فوج کے زخمیوں کے لئے سی ایم ایچ چلے گئے مگر کسی سویلین کے لئے نہیں گئے۔ جنرل راحیل شریف فوجیوں کے علاوہ عام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپہ سالار پوری قوم کے لئے عزت کے قابل ہوتا ہے۔ اب سیاسی اور عسکری قیادت کے مل کر فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ وقت گزر گیا تو پھر وقت ہمارا انتظار نہیں کرے گا۔ جرنیل اب سیاستدانوں کے فیصلے کے منتظر ہیں۔
سعودی نائب وزیر دفاع آئے ہیں۔ آج کل امریکی اہلکاروں کی بجائے سعودی اہلکاروں کی پاکستان میں آمد کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔ بہرحال اس میں ’’باہمی‘‘ دلچسپی کی باتیں ہوتی ہیں۔ اس دلچسپی کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ سب کہتے ہیں کہ مشرف کے لئے کوئی ہدایت لے کے آ جا رہا ہے۔ نواز شریف کو بھی سعودی شہزادہ مقرن ’’صدر جنرل‘‘ مشرف سے چھڑوا کے لے گیا تھا۔ میری دوسری بات سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ سعودی شہزادہ طالبان کے حوالے سے کوئی بات کرنے آیا ہو۔ جو بھی بات ہے مگر اتنا تو کرو کہ طالبان بے گناہ لوگوں کو نہ ماریں۔
مذاکرات کی بات بھی یک طرفہ ہو کے رہ گئی ہے نہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں نہ طالبان کی ظالمانہ کارروائیاں رکتی ہیں۔
ہماری حکومت کی بھارت کے ساتھ بھی بیان بازی اور کوشش جاری ہے۔ یکطرفہ دوستی کے لئے بات ہوئی ہے بھارت نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ اب کم عمر یعنی چھوٹے وزیر خرم دستگیر بڑے وزیر بن کر بھارت سے ہو کے آئے ہیں۔ وہ کبھی ان معاملات کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور مجید نظامی کے نیازمند اپنے والد غلام دستگیر خان سے بھی مشورہ کر لیں۔ باپ بھی لیڈر ہوتا ہے اس لئے ہم قائداعظم کو بابائے قوم بھی کہتے ہیں۔ خرم سے بات ہو گی۔ وہ ہمکلام نہ ہوئے تو کالم میں بات ہو پائے گی۔