دہشت گردی کیخلاف آپریشن، حکومت نے داخلی سلامتی کا لائحہ عمل تیار کر لیا
اسلام آباد (این این آئی) دہشت گردی کیخلاف آپریشن کیلئے وفاقی حکومت نے داخلی سلامتی کا لائحہ عمل تیار کر لیا ہے، دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے حکومت نے سول آرمڈ فورسز کے ایک لاکھ ترپن ہزار نوے افسر اور اہلکاروں کی قوت کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے، دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے ایف آئی اے، اسلام آباد پولیس، نادرا، سول ڈیفنس، ائر ونگ کے اداروں کی خدمات کو بھی استعمال میں لایا جائیگا۔26 مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا مربوط نظام کیا جا رہا ہے۔ صوبائی اور ضلعی سطح پر فاسٹ رسپانڈ یونٹس کو دہشتگردوں کی نشاندہی پر کارروائی کیلئے تربیت دی گئی ہے۔ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان وافغانستان، لشکرجھنگوی، کالعدم فرقہ وارانہ تنظیمیں، بھارتی و بیرونی خفیہ عناصر کو اندرونی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے، سکیورٹی پالیسی کی منظوری آئندہ کابینہ کے اجلاس میں دی جائے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ وزارت داخلہ کی دستاویز کے مطابق حکومت نے دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے وژن ترتیب دیا ہے جس کے تحت فاٹا اورخیبر پی کے میں تحریک طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور غیر ملکی مدد رکھنے والے دہشتگرد گروپوں کو خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی دستاویز کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں القاعدہ، تحریک طالبان اورلشکرجھنگوی کالعدم تنظیمیں دہشتگرد حملے کرسکتی ہیں گلگت بلتستان میں تحریک طالبان پاکستان، کالعدم فرقہ وارانہ گروپوں اور لشکر جھنگوی سے دہشتگردی خطرات لاحق ہیں جبکہ آزاد جموں وکشمیر میں بھارتی مدد رکھنے والے دہشت گرد خطرہ ہیں۔ دستاویز کے مطابق پنجاب میں تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اورکالعدم تنظیمیں دہشتگرد حملے کرسکتی ہیں۔ صوبہ سندھ میں تحریک طالبان پاکستان، لشکرجھنگوی، القاعدہ، لسانی دہشتگرد تنظیمیں، جرائم پیشہ مافیا اور ٹارگٹ کلر اندرونی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دئے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، بلوچ انتہا پسند گروپ، بی آر اے، بی این پی، لشکر بلوچستان، بی ایل یو ایف، بی ایم ڈی ٹی، بی بی پی اے، بی ڈبلیو ایل اے، بی آر پی اے، بی این ایل اے، یو بی اے، بی ایل ایف وغیرہ ملکی مدد رکھنے والے عناصر پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ دستاویز کے مطابق پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں سے دہشتگردوں اور اسلحہ کی ترسیل ہوتی ہے جس میں سرحدوں کے آر پار منظم جرائم پیشہ گروپ متحرک ہیں۔ افغانستان میں ایساف اور نیٹو افواج کی موجودگی اور افغانستان میں بدامنی سے پاکستان کی سلامتی متاثر ہو رہی ہے۔ بھارت سے کشمیر کے معاملہ پر سرد جنگ بھی پاکستان میں دہشتگردی کا موجب ہے۔دستاویز کے مطابق دہشت گردی پر قابو پانے اور پاکستان کی اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت نے سول آرمڈ فورسز کے ایک لاکھ ترپن ہزار نوے آفیسرز اور اہلکاروں کی قوت کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایف سی خیبر پی کے کے چالیس ہزار نوسو اسی افسر واہلکار، ایف سی بلوچستان کے تینتالیس ہزار دو سوانتیس افسرو اہلکار، پاکستان رینجرز پنجاب کے اکیس ہزار چار سو چار افسرواہلکار، پاکستان رینجرز سندھ کے انیس ہزار آٹھ سو آٹھ افسر واہلکار، فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اکیس ہزار پانچ سو چھیانوے افسر واہلکار، پاکستان کوسٹل گارڈز کے تین ہزار چھ سو ستر افسر و اہلکار اورگلگت بلتستان سکائوٹس کے دو ہزار تین سو تینتالیس افسر واہلکار شامل ہیں۔