قانون کے تحت چلا جائے‘ نیب قومی دولت لوٹنے والوں کیخلاف ریفرنس میں تاخیر کیوں کر رہا ہے: جسٹس جواد
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ میں اوگرا کرپشن اور نیب عمل درآمد رپورٹ سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہم نیب کے اختیارات نہیں لیتا چاہتے اس لئے اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اوگرا کرپشن کیس کی سماعت کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آج کی سماعت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے، لگتا ہے ہم نے پچھلی چالیس سماعتوں پر وقت ضائع کیا ہے۔ اٹارٹی جنرل سلمان بٹ نے کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیئے اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مختلف کیسز کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہم نے جلد بازی میں کیس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا، آسٹریلیا میں طریقہ کار وضع کر لیا گیا ہے کہ خود مختار اداروں کے بارے میں عدالت کہاں تک احکامات دے سکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ جو چاہے کرے، ہم نے اس لئے اٹارنی جنرل کی معاونت طلب کی ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے تحت پراسیکیوشن کا اختیار صرف چیئرمین نیب کے پاس ہے نہ کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے پاس، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ کل ان کا بہت مصروف دن گزرا ہے وہ اس کیس کی تیاری نہیں کر سکے عدالت انہیں کچھ وقت دے تاکہ وہ عدالت کو اپنا موقف دیں سکیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا گزشتہ سماعتیں بے معنی رہیں، ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نیب کو چاہئے کہ قانون کے تحت چلے اور ریفرنس دائر کرے۔ نیب قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟ جو کام 45 دن کا تھا وہ 26 ماہ میں مکمل نہیں ہوا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کچھ نئے مقدمات میں ہم نے جوڈیشل رویو کے حوالے سے فیصلے دیئے ہیں آسٹریلیا ہم سے بہت آگے نکل گیا ہم تو ابھی سر راہ کھڑے ہیں یہ عدالتیں بے لگام نہیں ہمارا کیا کوئی حرف آخر نہیں اگر قوانین ہمیں روکیں گے تو ہم ضرور رکیں گے ہر ادارے کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ مکمل طور پرنہیں مگر کچھ حد تک جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے کہ نیب کا اختیار بھی متاثر نہ ہو۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پراپر مقدمات میں ہمیں مداخلت کا اختیار ہے ہمیں جوڈیشل رویوکے حوالے سے پراپر کیس کے پیرا میٹرز کا بھی جائزہ لینا پڑے گا ۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب اور عدالتی اختیارات کے حوالے سے آئین و قانونی معاملات پر پراسکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا سے آج حتمی وضاحت طلب کی اور کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب بتائیں کہ اگر نیب سمیت کوئی بھی ادارہ آئین و قانون کی پاسداری نہ کرے اور لوگوں کو برسوں تک ریلیف نہ دے، عدالتی احکامات پر کئی کئی ماہ عمل نہ کرے ، تو عدالتیں کیا کریں ، سپریم کورٹ کی نیب مقدمات کے غیر ضروری التوا کے بارے میں آئین و قانون نے ہم پر کیا حدود مقرر کر رکھی ہیں۔ یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جاری کیا۔ نیب نے عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق اور دیگر ملزموں کیخلاف کی گئی کارروائی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کو نیب سمیت تمام اداروں کے قانون کے مطابق کام نہ کرنے پر ہر طرح کی مداخلت کا اختیار حاصل ہے آئین کے دیپاچے اور نیب آرڈیننس 1999ء کے دیپاچے میں بھی واضح کردیا گیا ہے کہ شہریوں کو جلد انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتیں اپنا اختیار استعمال کرینگی۔ اوگرا عملدرآمد کیس میں کے کے آغا پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے رپورٹ پیش کی ۔ کے کے آغا نے نیب کے دائرہ کار کے حوالے سے بھی دلائل دیئے نیب چیئرمین نے اجلاس بلایا تھا اور اس دوران فیصلے کئے گئے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو چیز 45دنوں میں چاہیے تھی وہ 26 ماہ میں بھی نہیں آئی ہمیں واضح بتا دیں 42ویں سماعت کررہے ہیں کیا احکامات جاری ہوئے ہیں ہم نے آپ کو معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کررکھا ہے اگر فیصلے اور رپورٹ کی کاپی ہے تو وہ دے دیں اوگرا میں قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے اور نیب قانون کے مطابق کیا کرسکتی ہے ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا تو عدالت نے آرڈر پڑھنے کا کہا جس پر اے جی نے آرڈر پڑھا جس میںکہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب بھی انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں اگر وہ خود موجود نہیں ہے تو معاملات بھی رکے رہیں گے ۔ کے کے آغاز کے مطابق نیب کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں پراسکیوٹر جنرل نیب نے اس حوالے سے ایک الگ درخواست بھی دائر کررکھی ہے جبکہ چیئرمین نے کہا کہ معاملہ دائرہ کار کا نہیں اس حکم نامے پر اے جی نے کہا سب سے پہلے آئین کا دیپاچہ پڑھنا چاہتا ہوں وہ بہت اہم ہے۔