پاک بھارت تعلقات اور قومی سلامتی کے تقاضے
پاکستان دنیائے اسلام کا قلعہ اور ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست ہے۔ پاکستان ایک ایسی نظریاتی مملکت ہے کہ جس کے معرض وجود میں آنے سے قبل کئی سوسالہ تاریخ کے تجربات اور یہاں بسنے والی مختلف اقوام کے مذاہب، ثقافت، رسم و رواج اور ان کے لسانی، نسلی اور علاقائی تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے برصغیر کے مسلمان اکابرین نے یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی بقا اور ان کے مفادات کا تحفظ صرف اور صرف اسی طرح ممکن ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ آزاد خطہ حاصل کیا جائے جہاں وہ اپنے مذہبی عقائد اور رسومات / ثقافت کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ حصول پاکستان چند برسوں کی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کی لازوال داستان موجود ہے۔ حقیقت تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان اس وقت بن گیا تھا جب پہلے مسلمان نے برصغیر میں قدم رکھا تھا۔
1947ء میں جب مسلمانوںکی طویل سیاسی جدوجہد رنگ لائی تو مجبوراً برطانوی سامراج کو برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ کرنا پڑا اورپاکستان کے قیام کیلئے باضابطہ قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ معاہدہ طے کرکے قیام پاکستان کا اعلان کیا گیا۔ تحریک جدوجہد آزادی جب کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو برسوں سے اکٹھے رہنے والے ہندو سامراج کی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئی اور پاکستان کے قیام کیخلاف سازشوں اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچانے کیلئے کٹر ہندو پنڈتوں، مہاسبھا اور اکھنڈ بھارت کے حامیوں نے خون کی ایسی ہولناک ہولی کھیلی کہ جس نے مسلمانوں کی آزادی کی خوشیوں کو دھندلا دیا۔ کم و بیش 16 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ انکی املاک نذر آتش کردی گئیں اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا واقعہ بھی پیش آیا جس میں 50 لاکھ مسلمانوں کو اپنے گھر بار، کاروبار، کھیت کھلیان اور اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنا پڑی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں مسلمانوں خاندان آگ اور خون کا دریا عبور کرکے پاکستان آئے اور پاکستان میں ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ افسوس کہ ہندوئوں اور سکھوں نے جی بھر کر مسلمانوں سے انتقام لیا اور پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔
آج جبکہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 66 سال ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ ہندو اور ہندوستان نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔
1948 ۔ 1965۔ 1971 اور1999 کی جنگوں کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ جبکہ کشمیر جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن کی ریاستوں پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اور سب سے بڑھ کر 1971ء میں پاکستان کے ایک بازو مشرقی پاکستان کو سازش اور فوجی قوت کے ذریعے جدا کرکے سابق وزیر اعظم اندراگاندھی کا یہ کہنا کہ ہم نے آج نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ ہندو مکارانہ ذہنیت کی بدترین عکاسی کرتا ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں ایک طبقہ بھارت سے دوستی اور تعلقات کے نام پر تجارت، ثقافت اور سیاست کا میل ملاپ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے یہ طبقہ حقائق کو پس پشت ڈال کر توقع کرتا ہے کہ شاید بھارت سے دوستی کرنے سے ہمیں کچھ حاصل ہو سکتا ہے حالانکہ اگر یہ طبقہ بھارت اور بھارت سورمائوں کی پچھلے 150 سالہ تاریخ پر بغور نظر ڈالیں تو انہیں خود احساس ہو جائے کہ بھارتی سیاستدانوں اور مذہبی پنڈتوں نے مسلمانوں سے کیا رویہ اختیار کیا آج ایک مرتبہ پھر بعض سیاستدان اور میڈیا میں بیٹھے ان کے ترجمان بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ عناصر قوم کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت اور دوستی میں ہی اس خطہ میں امن اور ترقی کی ضمانت ہے اور بھارت سے آلو، پیاز اور پان کی تجارت سے ہندوستان سے دوستی کا بندھن مضبوط ہوگا اور خطے میں خوشحالی آجائے گی۔ جب ان سے سوال کیا جائے کہ کیا کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ، کشمیر کے مظلوم مسلمانوں پر بدترین تشدد انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں اور کنٹرول لائن پر آئے دن بھارتی افواج کی بلا جواز فائرنگ اور پاکستانی فوج کے جوانوں کو شہید اور زخمی کرنے کی کاروائیاں ہمیں بھارت سے تجارت اور دوستی کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور کیا بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریائوں کا پانی روک کر ہمیں زرعی طور پر نقصان پہنچانے اور بنجر بنانے کی پالیسی کے ہوتے ہوئے دوستی پروان چڑھ سکتی ہے اور کیا کی اجازت دیتی ہیں کہ ہم بھارت سے دوستی کا راگ الاپیں۔
ہم بھارت سے کس بنیاد پر دوستی کے خواہش مند ہیں۔ کیا دوستی کا ڈھونڈورا پیٹنے والوں نے تاریخ پڑھی ہے۔ دوستی کی بنیاد رکھنے سے پہلے سوچنا پڑے گا کہ بھارت نے کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو خون میں نہلایا ہے۔ ہزاروں معصوم خواتین جن کی آبرو ریزی کی گئی ہے۔ دوستی سے پہلے ان کے زخموں پر مرحم کون رکھے گا۔ مشرقی پاکستان کے زخم آج بھی پاکستانیوں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ ان حالات میں پاک بھارت تعلقات کی باتیں محض مخصوص طبقہ کی ذاتی آرزو تو ہو سکتی ہیں لیکن زمینی حقائق سے ان کا تعلق نہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت سے تعلقات ، تجارت اور ثقافتی روابط سے پہلے ان تاریخی حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے اور بھارت سے تجارت سے پہلے ’’کشمیر کی آزادی‘‘ ہماری زراعت کیلئے زندگی یعنی پانی کے مسئلہ ’’کشمیری مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ‘‘بھارت کی جانب سے پاکستان کی حقیقت کو دل سے تسلیم کرنے اور اکھنڈ بھارت کا خواب چھوڑ کر کھلی آنکھوں سے حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جائے تب انشاء اللہ یہ خطہ امن اور سلامتی کا گہوارہ بن سکے گا اور یہی ہماری قومی سلامتی کے ہم تقاضے ہیں۔