میانوالی کے رنگ اور عمران خان کی سیاست؟
سعید اللہ خان نیازی میانوالی کے’’ نیازی قبیلہ‘‘کے سربراہ اورتحریک انصاف کے قائد عمران خان کے کزن ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر ہو یا عمران خان کی سیاست میں آمد، وہ ہر محاذ پر عمران خان کے شانہ بشانہ رہے۔
چند روز قبلسعید اللہ خان نیازی کے صاحبزادے فہیم خان نیازی کی ڈیفنس میں دعوت ولیمہ تھی۔ جس میں ملک بھر سے ہر شعبہ کی نمایاں شخصیات نے شرکت کیجن میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے سینئر مشیر سردار ذوالفقار خان کھوسہ،سابق ایم این اے حنیف عباسی، سابق گورنر لیفٹننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، لیفٹننٹ جنرل (ر) محمد فاروق، ایئر مارشل (ر) فیروز خان، سینئر صحافیوں مجیب الرحمٰن شامی، ڈاکٹر اجمل نیازی، ریاض صحافی، ضیاء اللہ نیازی اور ممتاز طبی ماہر ڈاکٹر غلام اکبر بھی شامل تھے۔ جبکہ خاندانی شادی کی اس تقریب میں عمران خان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ عمران خان کی مبینہ ہٹ دھرمی ہے، تقریب کے منتظم اعلٰے حفیظ اللہ نیازی تھے، حفیظ اللہ نیازی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کا تانا بانا بُنا اور عمران خان کو صف اول کا سیاسی رہنما بنایا۔ رشتے میں وہ عمران خان کے بہنوئی بھی ہیں۔
ایک عرصہ سے میانوالی کی سیاست میں نیازی خاندان کا اہم کردار رہا ہے۔ عمران خان کے کزن اور سعید اللہ نیازی کے بھائی انعام اللہ نیازی وہاں سے کئی بار بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے رہا ہے، انعام اللہ نیازی نے عمران خان کی خاطر مسلم لیگ (ن) سے طویل رفاقت چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی مگر حالیہ قومی الیکشن میں عمران خان نے انعام اللہ نیازی کو تحریک انصاف کی ٹکٹ نہ ملنے دی، جس کے بعد عمران خان اور نیازی خاندان میں اختلافات کا آغاز ہوا۔ اس بارے میں عمران خان اور نیازی خاندان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، مگر سعید اللہ نیازی کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ نے عمران خان اور نیازی خاندان کے درمیان اختلافات کی شدت کو ظاہر کردیا ہے سر محفل حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ اب عمران خان اور ہمارے راستے جدا ہوچکے ہیں وہ قابل اعتماد شخص نہیں ہے، وہ لوگوں کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرتا ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے تحریک انصاف کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے لیکن عمران خان اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے اس موقع کو بھی ضائع کررہا ہے۔ عمران خان کانوں کے کچے ہیں جو انہیں جس طرف چلاتا ہے وہ اس طرف چل نکلتے ہیں۔
نیازی قبیلہ کے سرکردہ افراد کی عمران خان سے ناراضگی اپنی جگہ لیکن تقریب میں شریک شرکاء کا کہنا تھا کہ اگر سعید اللہ نیازی نے عمران خان کو بیٹے کی شادی اور دعوت ولیمہ میں نہیں بلایا تو تب بھی اُس کا فرض تھا کہ وہ اس خاندانی تقریب میں چلے آتے، تاکہ رنجشیں اور کدورتیں ختم ہوجاتیں، مگر جو لیڈر خاندان کی خوشی اور غمی میں شریک نہ ہو اس نے عوام کیلئے بھلا کیا کرنا ہے؟
عمومی تاثر ہے کہ میانوالی کے نیازی قبیلہ کے لوگ خوبرو، گھبرو جوان ہوتے ہیں، پنجابی زبان کا لفظ ’’ گبھرو ‘‘ ان پر خوب جچتا ہے، اس محفل رعنا میں ہر جانب لم سلمے، سات فٹے، طاقتور اور توانا نوجوانوں کی بہار تھی، بچوں کی اٹھکیلیوں کے ساتھ بوڑھے نیازیوں کی توانائیاں بھی دیدنی تھیں، محفل میں دو تین نیازی قد کاٹھ کے حوالے سے قدرے ماٹھے بھی تھے۔ ان لاغر اور کمزور نیازیوں میں ایک ہمارے دوست اور ’’ نوائے وقت فیلو ‘‘ ڈاکٹر اجمل نیازی بھی ہیں، ڈاکٹر اجمل نیازی روایتی نیازیوں کی طرح ’’ لم سلمے اور موٹے تازے ‘‘ تو نہیں، مگر علم و دانائی میں وہ بڑے بڑوں پر بھاری ہیں اس تقریب میں ایک ’’ خوبصورت واردات ‘‘ ہوئی۔ یہاں ڈاکٹر اجمل نیازی کا ایک ہم شکل بھی مدعو تھا۔ انہی کی طرح قد کاٹھ .... چہرے پر داڑھی اور سر پر دھاری دار ’’پگڑ ‘‘ لوگ اسے دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی سمجھ کر اس کے ساتھ تصویریں بنوارہے تھے اور اس کی تعریفیں کررہے تھے۔ وہ صاحب خوشی سے سرشار صوفہ پر بیٹھے اِدھر اُدھر گردن گھما کر سارے پنڈال کا جائزہ لے رہے تھے۔ ان کا کھیل اس وقت چوپٹ ہوگیا جب محفل میں اصلی ڈاکٹر اجمل نیازی چلے آئے، ڈاکٹر اجمل نیازی کو دیکھ کر نقلی اجمل نیازی ان کی طرف بڑھے، ہاتھ ملایا، گلے ملے اور ان سے التجا کی کہ ڈاکٹر صاحب مجھے ان لوگوں سے بچائیں جو مجھے ’’ نوائے وقت والا ڈاکٹر اجمل نیازی ‘‘ سمجھ کر میرے صدقے واری ہورہے ہیں، میری عزت افزائی کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کشادہ دل اور مہربان شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے ہم شکل کو اس خوشگوار تقریب میں رسوا نہ ہونے دیا، ڈاکٹر اجمل نیازی کا اعزاز ہے کہ انہوں نے لاہور میں بھی ایک چھوٹا سا میانوالی بسا رکھا ہے۔ وحدت کالونی میں ان کا آنگن میانوالی کی خوشبوئوں اور رنگوں سے لبریز ہے۔ مہمانوں کی آئو بھگت وہ میانوالی کے پکوانوں سے کرتے ہیں اور میانوالی کے بھاری بھر کم ’’ پگڑ ‘‘ کو ہر وقت اپنے سر پر ٹکائے رکھتے ہیں۔ سردیوں میں تو یہ ’’ پگڑ ‘‘ سردی سے حفاظت کیلئے بہتر ہے۔ مگر جون اور جولائی کے گرم موسم میں اس پگڑ کو سر کا تاج بنائے رکھنا، ڈاکٹر صاحب کا ہی حوصلہ ہے۔
میانوالی کے اس روایتی ’’ پگڑ ‘‘ کو ’’ لنگی داپٹکا ‘‘ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے حفیظ اللہ نیازی نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ ’’ لنگی دا پٹکا ‘‘ کو سر پر باندھنے کے لئے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے، ہر کوئی اپنے سر پر یہ ’’ پٹکا ‘‘ نہیں باندھ سکتا۔ ہم نے دعوت ولیمہ کی اس تقریب میں سروں پر ’’ لنگی دا پٹکا ‘‘ سجانے کیلئے میانوالی سے اس فن کے ماہر استاد عبدالحمید خان کو خصوصی طور پر لاہور بلوایا ہے۔
تقریب کے ایک خاص مہمان ڈاکٹر غلام اکبر ان دنوں اسلام آباد میڈیکل اور ڈینٹل کالج کے سربراہ ہیں سعودی عرب کی کنگ فیملی سے ان کے خصوصی مراسم ہیں وہ پرنس عبداللہ کے معالج بھی رہے ہیں انہیں چاہیے کہ ان کے سعودی عرب کی رائل فیملی سے جو تعلقات ہیں وہ ان کا رخ پاکستان کی طرف موڑیں اور انہیں بروئے کار لاتے ہوئے ملکی معیشت کو فوکس کریں۔ ڈاکٹر غلام اکبر کے ایسا کرنے سے ان کا پاکستان پر احسان عظیم ہوگا۔
ولیمہ کی تقریب میں ڈھول کی ڈم ڈما ڈم پر شہنائی کی سریلی دھنیں اپنا جادو بکھیر رہی تھیں۔ جن پر میانوالی کے گبھرو اپنے سروں پر ’’ لنگی دے پٹکے ‘‘ سجائے رقص کررہے تھے، دولہا کے تایا انعام اللہ نیازی کے رقص پر سب سے زیادہ ویلیں دی گئیں۔ اس تقریب میں میانوالی کے سارے خوبصورت رنگ لاہور چلے آئے تھے، ولیمہ کی اس تقریب کی سب سے اہم بات یہ بھی تھی کہ یہ رات کی بجائے دن کو منعقد کی گئی، تاکہ بجلی کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔