• news
  • image

طالبان کی مذاکرات کیلئے پھر پیشکش…آج جائزہ لیں گے : پرویز رشید‘ سازگار ماحول فراہم کرنا حکومتی ذمہ داری ہے‘ شاہد اللہ : طالبان کو شدت پسندی کے واقعات کا جواب دینا چاہیے : وزیر اطلاعات

طالبان کی مذاکرات کیلئے پھر پیشکش…آج جائزہ لیں گے : پرویز رشید‘ سازگار ماحول فراہم کرنا حکومتی ذمہ داری ہے‘ شاہد اللہ : طالبان کو شدت پسندی کے واقعات کا جواب دینا چاہیے : وزیر اطلاعات

اسلام آباد (نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم ڈاکٹر محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ فیصلہ کن رائونڈ کیلئے تمام سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ جلد فیصلہ کن معاملات شروع ہو رہے ہیں، عوام ہمارے لئے دعا کریں تاکہ اس انتہائی اہم موڑ پر ملک و قوم کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال کی فوری بحالی ملکی استحکام ہی ہماری پہلی ترجیح ہے۔ وہ معروف نعت خوان عبدالرزاق جامی سے گفتگو کر رہے تھے جنہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے ضلع چکوال کے فوری حل طلب مسائل کے بارے میں انکی توجہ دلائی۔ وزیراعظم نے کہا اس وقت ملک اپنے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ بنیادی اور پہلی ضرورت ملک کو بچانا ہے۔ وزیراعظم نے اس یقین کا اظہار کیا کہ انشاء اللہ قوم کی دعائوں سے ہم اس اہم مرحلے میں کامیاب و کامران ہونگے کیونکہ پوری قوم ہمارے ساتھ ہے اور ملکی سلامتی اور استحکام پر کوئی نرمی دکھائی جائیگی اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ قبول کیا جائیگا۔ اب مشکل فیصلے ہونگے اور انشاء اللہ ان مشکل فیصلوں کے نتائج بھی جلد سامنے آئیں گے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر کہا ہے کہ آج پارٹی کے اجلاس میں اس پیشکش کا جائزہ لیا جائیگا کہ آیا یہ سیاسی بیان ہے یا وہ آئین کے مطابق زندگی گزارنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں طالبان نے مسلح افواج، سکولوں، عبادتگاہوں اور عام شہریوں پر متعدد حملے کئے، اب ایک دم انکا ذہن بدلا ہے تو اس پر ہم پارٹی کے اعلیٰ اجلاس میں ضرور غور کریں گے۔ ان سوالوں کا جواب انہیں دینا ہوگا کیونکہ اگر وہ خود کہتے ہیں کہ وہ بات چیت میں سنجیدہ تھے اور خود تسلیم کر رہے ہیں کہ انکے پاس وفود آئے تھے تو گذشتہ دنوں انہوں نے شدت پسندی کے جتنے بھی واقعات کئے ہیں اسکا جواب بھی انہیں دینا چاہئے۔ اجلاس میں ہم انکے ذہن کے بدلنے کے بارے میں غور کریں گے۔ اس بارے میں ہمارے ذہن میں بھی بہت سارے سوالات ہیں، ہم انکا جائزہ لیں گے۔ اس بات پر بھی غور کریں گے کہ کیا واقعی میں طالبان سنجیدہ ہیں، کیا یہ سیاسی بیان ہے یا وہ امن قائم کرنے کیلئے آئین کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، ان سوالوں پر غور کریں گے۔ ایک اور انٹرویو میں پرویز رشید نے کہا ہے کہ ماضی کی حکومتیں ملک کو دہشت گردی اور بدامنی کا شکار چھوڑ کر چلی گئیں، پارلیمنٹ کی تمام جماعتیں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے متحد ہیں۔ کوئی بھی بندوق کے ذریعے قوم کو یرغمال بنا کر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ بطور مہذب قوم بندوق اٹھانے والوں کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن وہ بندوق اٹھانے پر بضد ہیں۔ کسی کو ریاست کے کسی بھی حصے پر من مانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ریاست کے ایک ایک انچ پر آئین قانون کی حکمرانی اور حکومتی رٹ کو ہر صورت یقینی بنایا جائیگا۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک میں بندوق اٹھانے والوں کے مقابلے میں بندوق نہیں اٹھائی جاتی بلکہ سب سے پہلے بندوق اٹھانے والے کو وارننگ اور مذاکرات کی دعوت دی جاتی ہے‘ بدقسمتی سے حکومتوں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کوئی واضح پالیسی بنانے کی بجائے آنکھیں بند کی رکھیں، جرأتمندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، ملک کو بدامنی اور شدت پسندی کا شکار چھوڑ کر چلی گئیں۔ دہشت گردی کے ان تمام حالات میں ہمارے پاس دو ہی راستے تھے یا تو ہم خون کا بدلہ خون‘ دہشت گردی کا بدلہ دہشت گردی اپناتے یا پھر مذاکرات کی دعوت دیتے اور ان سے کہتے کہ وہ آئیں اور ہمیں اپنے تحفظات بتائیں‘ اسلئے ہم نے بندوق اٹھانے والوں کو مذاکرات کی دعوت دی کیونکہ پاکستان مہذب ملک ہے، ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھی ہمیں مہذب ملک کے طورپر دیکھے لیکن جب ہماری مذاکرات اور بات چیت کی دعوت پر بندوق اٹھانے والوں نے اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کی بجائے پھر دہشت گردی کی تو اسکے بعد ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا کہ ہم ہر صورت حکومتی رٹ کو یقینی بنائیں۔ پاکستان میں کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ریاست کے کسی بھی حصے میں اپنی عدالت لگائے‘ خود ہی سزا دے اور خود ہی پراسیکیوٹر ہو۔ جو لوگ لوگوں کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں ان کیخلاف کارروائی کیلئے ہم نے قدم اٹھا دیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر امیر مقام نے کہا ہے کہ عمران خان، مولانا سمیع الحق، منور حسن اور مولانا فضل الرحمن طالبان کا ایجنڈا سامنے لائیں، حکومت طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ پشاور میں کھلی کچہری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر مقام نے کہا حکومت خون بہائے بغیر قیام امن کی خواہاں ہے۔ ایسے کسی ایجنڈے کو تسلیم نہیں کیا جائیگا جس میں حکومتی رٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اگر مرکزی حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے اور خیبر پی کے حکومت اس کا ساتھ نہیںدیتی تو دہشت گردی مزید بڑھے گی۔ امیر مقام نے کہا کہ حکومت خون بہائے بغیر قیام امن کی خواہاں ہے۔ ملک میں قیام امن کیلئے حکومت سنجیدہ ہے، اس کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کو متحد ہونا ہوگا۔ تحریک انصاف کے شکوے پر وزیراعظم سوات گئے تاہم کسی صوبائی عہدیدار نے ان سے رجوع نہیں کیا جس پر وہ اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کریں گے۔
میرانشاہ (نیٹ نیوز+ بی بی سی+ ایجنسیاں) کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ایک ہفتے میں اپنے تیسرے بیان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر مذاکرات کے نام پر سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو وہ اپنی پوزیشن واضح کرے۔ گزشتہ ہفتے میں جاری ہونے والے تینوں بیان کالعدم تنظیم کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو موصول ہوئے تھے۔ اب موصول ہونے والے تحریری بیان میں ایک بار پھر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ طالبان ہمیشہ سے مذاکرات کیلئے سنجیدگی سے تیار ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے کہا کہ طالبان نے بارہا یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بامعنی، پائیدار اور سنجیدہ مذاکرات کیلئے ہمیشہ تیار ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے پاس مولانا سمیع الحق کے قاصد سمیت جتنے بھی امن کے خواہاں وفود آئے، طالبان نے انہیں مثبت اور حوصلہ افزا جوابدیا جبکہ حکومت کی طرف سے صرف میڈیا پر بیان بازی ہوتی رہی ہے تاکہ عوام کو مغالطے میں ڈال کر حقیقت سے گمراہ کیا جاتا رہے۔ شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ حکومت مذاکرات سے متعلق پروپیگنڈے اور دھمکی کی سیاست کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا حکومتی میڈیا نے مذاکرات کے حوالے سے تحریک طالبان کے روئیے سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈے کئے۔ الزام تراشیوں اورخود ساختہ انکار کے بعد ایک بار پھر قبائلی عوام پر جنگ مسلط کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، یہ ایک جنگی چال اور امریکہ کو خوش کرنے کا آسان طریقہ ہے حالانکہ تحریک طالبان نے ذمہ دار فورم پر بارہا یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بامعنی، پائیدار اور سنجیدہ مذاکرات کیلئے ہمیشہ تیار ہے۔ شاہد اللہ شاہد نے ویب سائٹ  پر جاری بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں‘ مذاکرات کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان بامعنی‘ پائیدار اور سنجیدہ مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ حکومت کی طرف سے صرف میڈیا پر بیان دیئے جاتے ہیں تاکہ عوام کو مغالطے میں ڈال کر حقیقت سے گمراہ کیا جاتا رہے۔ ملک کو ایک اور خوفناک جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومتی میڈیا نے تحریک طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا ہے۔ حکومت مذاکرات سے متعلق پراپیگنڈہ اور دھمکی کی سیاست کر رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے حکومتی میڈیا غیر جانبداری کا مظاہرے کرے اور بے بنیاد پروپیگنڈے سے اجتناب کیا جائے۔ واضح رہے اس سے قبل  وفاقی حکومت نے بنوں اور راولپنڈی میں فوجی قافلوں پر حملوں کے بعد سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا اور شمالی وزیر ستان اور خیبر ایجنسی میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کئے گئے تھے جس کے بعد مولاناسمیع الحق نے مذاکراتی عمل سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ ترجمان نے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات میں مخلص ہے تو اپنی پوزیشن واضح کرے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے غیور  اور باشعور مسلمانوں پر ایک بار پھر واضح کرتے ہیں کہ حکومت محض امریکی ڈالر بٹورنے کی خاطر جھوٹے پروپیگنڈے کی آڑ میں اس ملک کو ایک اور خوفناک جنگ میں دھکیلنے پر مُصر ہے۔ حکومت نے طالبان سے مذاکرات پر جماعت اسلامی  سمیت مذاکرات کی حامی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے لیاقت بلوچ سے رابطہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات جلد ہونے کا امکان ہے۔ لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں امن چاہتی ہے تو  حیلے بہانوں کو ترک کر کے فوری مذاکرات کا آغاز کرے۔ پاکستان کے بغیر مسئلہ افغانستان کا حل ممکن نہیں، بھارت امریکہ گٹھ جوڑ خطے کی سلامتی پر سوالیہ نشان ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں وزیر داخلہ چودھری نثار کی امیر جماعت اسلامی منور حسن سے ملاقات متوقع ہے، اس کے بعد اگلے مرحلے میں امیر جماعت اسلامی کی وزیر اعظم سے بھی ملاقات کا امکان ہے۔ لیاقت بلوچ نے بتایا کہ وزیر داخلہ چودھری نثار کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، ہم نے حکومت سے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ اگر حکومت ملک میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو بغیر کسی حیلے بہانے  بامقصد مذاکرات کا آغاز کرے۔ آئے روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعات بھی مذاکرات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ ملک میں اس صورتحال سے نکالنے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ انہوں نے سرتاج عزیز اور انکی ٹیم کے دورہ امریکہ بارے سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں  استحکام ہو اور اس سلسلے میں پہلے ہمیں ملک کے اندرونی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ پاکستان کے بغیر مسئلہ افغانستان کا حل ممکن نہیں۔ افغانستان میں بھارت امریکہ گٹھ جوڑ بھی اس خطے کے امن کیلئے شدید نقصان کا باعث ہے۔ اس معاملے پر بھی حکومت پاکستان کو اپنا موقف درست اور واضح انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ثناء نیوز کے مطابق قبائلی علاقوں میں قیام امن کے معاملے پر اسلام آباد میں حکومت کے تحت آئندہ چند روز میں اہم سیاسی سرگرمی متوقع ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے اس بارے میں پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے رہنمائوں کو اعتماد میں لئے جانے کا قوی امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق قبائلی علاقوں میں امن کو موقع دینے یا فیصلہ کن طاقت کے استعمال کے آپشنز کے حوالے سے حتمی فیصلے کیلئے تیزی سے  پیشقدمی جاری ہے۔ کسی بھی وقت حکومت کی جانب سے اس بارے میں قوم کو سرپرائز دیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ کی دو اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ تمام جماعتیں قبائلی علاقوں میں طاقت کے استعمال کے متبادل آپشن کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر آگئی ہیں ۔ خیبر پی کے کی حکومتی جماعتوں نے واضح کر دیا ہے کہ قبائلی علاقوں میںآخری وقت تک  امن کو موقع دینے کے لئے تمام کوششوں  اور اثرورسوخ کو بروئے کار لایا جائے۔ پارلیمنٹ کی ان  دو  اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ممکنہ طور پر متبادل آپشن کے استعمال کی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق دیگر جماعتیں بشمول حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتیں ممکنہ اقدامات کے حوالے سے حکومت کے ساتھ  کھڑی ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن