• news

’’میرا سلطان‘‘

بہت کم ڈرامے، پروگرامز ایسے ہوتے ہیں جو آبادی  کے ایک بڑے حصہ کو ایک مخصوص وقت میں سحر زدہ کر کے رکھ دیں۔ پی ٹی وی کے شہرہ آفاق ڈراموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ چینلز کی بھرمار کے بعد پرائیویٹ پروڈکشن والوں نے جہاں ناظرین کو معیاری ڈرامے پیش کئے وہاں سماج میں گند بھی خوب ڈالا۔ اب غیر ملکی  ڈراموں کی لہر آئی ہوئی ہے۔ ’’انڈیا‘‘ کے بعد اب ترکی ہماری آنکھ کا تارا بنا ہُوا ہے۔ ہر تیسرے دن حکمران اُدھر جا رہے ہیں اور اُن کے اِدھر۔ کامیاب دوروں کے ان گنت معاہدے ہو چکے ہیں۔ دوسر ی طرف ایک گروپ ’’ترکی ڈرامے‘‘ اُردو میں ڈب کر کے ہماری مسلم تاریخ کے ایک مہذب دور کو صرف گلمیرائز ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ ’’مرا سلطان‘‘ آن آئر ٹائم میں پاکستان کی نصف سے زائد خواتین ٹی وی کے آگے براجمان ہوتی ہیں۔ شام کی مصروفیات کو ڈرامے کے اوقات میں طے کیا جاتا ہے۔ ڈرامے کی مقبولیت کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ملکائوں، شہزادیوں کا شاہانہ مگر ماڈرن نیم عریاں لباس، طول طویل جلوس، تکبرانہ اندازِ حکومت، خوبصورت محل، راہداریاں، نشست گاہیں، مسحورکن باغات باعث کشش تو ہیں ہی مگر عشقیہ داستانیں اس وقت آتش گاہ بن جاتی ہیں جب حسد، جلن اور رقابت باہم مل کر رقیب کو پچھاڑتے ہیں۔ ہر دن کہانی کا ایک نیا موڑ، سسپنس سے بھرپور، کہیں پوری کہانی ’’آقا‘‘ پر قبضہ میں ڈھل جاتی ہے تو کبھی سلطنت کے خزانے اپنے تصرف میں لینے کی پلاننگ طول پکڑ جاتی ہے۔
ہم نے جو تاریخ پڑھی ہے اُس کے مطابق محل، حرم، شاہانہ انداز زندگی سب کچھ ٹھیک ہے۔  اصل تاریخ ’’سلطان سلیمان‘‘ کی شاندرا فتوحات سے پُر ہے مگر ’’میرا سلطان‘‘میں ’’آقا‘‘ کا کردار خاصا ڈرامائی بنا دیا گیا ہے۔ ’’آقا‘‘ فتوحات سے دُور ’’زنانہ میدان‘‘ میں زیادہ سرگرم دِکھایا جاتا ہے۔ اِس ڈرامے کو صرف اور صرف مسلمانوں کی روایتی چالاکی، عیاری، ازلی سازشی طبیعت، شہرت بخش رہی ہے۔ سیاست آلودگیوں سے پُر ہوتی ہے۔ بادشاہ کسی بھی سچ، حق آواز کو برداشت نہیں کرتا۔ شہنشاہیت خون بہانے کا نام ہے۔ اِسی  شہنشاہیت  کو آج ہم بُھگت رہے ہیں۔ ’’سلطان سیلمان‘‘ اپنے وفا دار’’ وزیراعظم‘‘ کو زنانہ سازشوں کو جھانسے میں آ کر مروانے کے بعد میدانِ جنگ میں جنگی مہمات کے پے در پے ناکامیوں کے صدمے سہہ رہے ہیں۔ ایک مخلص دوست کو زنانہ ذہنیت سے مروا کر اکیلا پن محسوس کر رہا ہے۔ طاقت، دولت کی کِس کو چاہ نہیں ہوتی جو جتنے بڑے عہدے پر پہنچتا ہے۔ وہ اتنی ہی بڑی بدعنوانی، حرص، ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بڑے عہدے کے وقار، بوجھ کو سہار سکیں۔ اپنے منصب کے تقاضوں کو نبھا سکیں۔
مسلمانی شہنشانیت کی تاریخ بھی بڑی انوکھی ہے۔ مغلیہ دور حکومت پر نظر ڈال لیں یا پھر ترک دور حکومت  پر، حکمرانوں کی داستان عشق سے شروع ہوتی  اور عشق پر ختم ہو جاتی ہے۔ حرم، کینزیں  بڑے بڑے محلات، باغات خود سے سوچئے کہ اِن لمبی تاریخوں کے حکمران ہمارے لئے کیا لکھ گئے۔ کِسی نے کوئی عالیشان یونیورسٹی بنائی؟ کِس نے جدید ترین طبی درسگاہیں اور شفا خانے تعمیر کروائے۔ کِسی نے کوئی سائنسی ایجاد میں حصہ ڈالا؟ کِسی نے بھی تو کائنات کو ذرا سا بھی ڈسٹرب نہیں کیا۔ سب حرم سے نکلتے اور حرم میں گُھس جاتے تھے۔ گُستاخی معاف، مسلمانوں کے ایک مختصر دور کو چھوڑ کر باقی شرمندگی ہی شرمندگی ہے۔ تاریخ ساز عمارتیں کھڑی ہیں مگر اِن کو بنانے والے راندۂ درگاہ۔ اگر ہمارے اسلاف اپنی صلاحتیوں، اہلیت کو انسانی اذہان کی تعمیر و ترقی میں صرف کرتے تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ ہم بھی عجیب قوم ہیں ہر دور میں ہمارے دوست بدلتے رہے۔ آج ’’ترکی‘‘ فیورٹ ہے --- پے در پے دورے، اُن کی آنیاں جانیاں، پاک تُرک دوستی زندہ باد، پاک ترک بھائی بھائی، سب پر سر تسلیمِ خم مگر ان نعروں کا پھل اور دوستی کا سواد عوام تک کیوں نہیں پہنچا؟ برادر ملک بقول رول ماڈل ہے تو کرپشن پر وہاں کے وزراء نے استعفے دیدیے، یہاں ابھی تک ایسی کوئی مثال قائم نہیں ہو سکی۔
دہشت گردی کی ایک ہولناک  لہر کا سامنا کرتی ہوئی قوم عجیب تماشے دیکھ رہی ہے۔ بجلی، گیس نایاب، مہنگائی ’’کالا جادو‘‘ بن چکی ہے۔ کہیں ’’ویکھ لاہور‘‘ اور کہیں سندھ ثقافت کے نام پر ’’صدر پاکستان‘‘ کے سٹائل میں (سرکاری رقوم خرچ کر کے ماڈل تقریر) قوم کو میلوں، ٹھیلوں سے بہلانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ’’پاکستانی‘‘ بھی ’’میرا سلطان‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں؟پس تحریر : کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی کوششیں عملی صورت اختیار کرتی نظر آ رہی ہیں وفاق بالخصوص پنجاب کی قیادت اس سلسلہ میں کافی پُرجوش اور پُرعزم اقدامات کر رہی ہے۔ بجلی کا بحران حل ہونے کی اُمید نظر آ رہی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن