عام آدمی
لفظوں کا چناؤ خوبصورت نہیں، بے شک عام آدمی کو نہیں معلوم کہ آرٹیکل 62، 63 کس چڑیا کا نام ہے؟ آرٹیکل 6 کیا بلا ہے لیکن عام آدمی کو ان سب سے کیا واسطہ؟ اس کے لئے تو جعلی ڈگری ایم پی اے اور اصل ڈگری ایم پی اے میں بھی کوئی فرق نہیں۔ اسے ان کی ڈگری کے اصل یا جعلی ہونے سے کیا سروکار؟ دونوں طرف کے ارکان اگر حکومت میں، تو دونوں کا طرز حکمرانی بالکل ایک جیسا۔ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے، اب چاہے ڈگری اصل ہے یا نقل اگر اپوزیشن میں تب بھی ایک جیسا طرز عمل کہ حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالنا، ٹانگ اڑانی ہاں پہلے والی خاصیت یہاں بھی کہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنا تو ہمارے لئے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ لوگ بھی سوچیں گے کہ پھر عام آدمی کو کس سے فرق پڑتا ہے؟ فرق پڑتا ہے، بالکل ہم لوگوں کو بھی فرق پڑتا ہے، جب دسمبر کے مہینے میں بجلی کا بل ہاتھ میں آتا ہے تو دماغ میں اتھل پتھل مچ جاتی ہے، شریانوں میں خون کے دوڑنے میں تیزی آ جاتی ہے کہ ہم نے تو پورے مہینے گھر میں صرف دو بلب ہی لائے تھے اور بل تب بھی ساڑھے تین ہزار، کس سے کہیں؟ کس سے فریاد کریں؟ کون یہ ظلم روکے؟ واپڈا کے دفتر جائیں تو وہاں بھی ہماری طرح دکھیارے لوگوں کا جم غفیر، کوئی بات سننے کو تیار نہیں، یہی حال گیس اور پانی کے بل کا، گیس آتی نہیں لیکن ہر مہینے بل باقاعدگی سے آتا ہے۔ اب آپ لوگ خود بتائیے کہ ہمیں نون لیگ، پی پی، پی ٹی آئی کی حکومت سے کیا واسطہ، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی جیتی، کون سی ہاری، عام آدمی کے خالات تو ہر دور حکومت میں ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔ (ظہور الصباح صدیقی )