• news

سندھ حکومت کراچی آپریشن میں تعاون نہیں کر رہی ‘ فضل اللہ اینڈ کمپنی مذاکرات نہیں چاہتی تو دوسرا آپشن بتائے : نثار

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ طالبان  پر اب زیادہ یقین نہیں رہا، ان کے خلاف کارروائی کرنی ہے یا مذاکرات اس حوالے سے وزیر اعظم جو بھی حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائیگا۔ مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے شرکا کو کراچی سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال اور طالبان سے ممکنہ مذاکراتی رابطوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ ملکی سلامتی پر بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ملکی سلامتی کے مسئلے پر سیاست سے گریز کریں، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیکٹا مرکزی کردار ادا کریگا، ریپڈ رسپانس فورس بھی قائم کی جائیگی، دہشت گردوں کی شناخت کیلئے خصوصی نظام قائم کیا جا رہا ہے، قومی سلامتی پالیسی میں تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے، عوام کے تحفظ کیلئے انٹیلی جنس اداروں کو مضبوط بنایا جائیگا، سندھ حکومت کراچی میں امن و امان کیلئے کئے جانیوالے آپریشن پر مکمل تعاون نہیں کررہی رینجرز اور خفیہ اداروں کی معلومات کی بنیاد پر کراچی میں کامیابیاں مل رہی ہیں، پولیس اور رینجرز نے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کی، حکومت طالبان سے مذاکرات کیلئے انتہائی نیک نیتی سے آگے بڑھ رہی تھی مگر پھر کسی نہ کسی طرح ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ مذاکرات کا راستہ رک گیا۔ طالبان کی جانب سے مذاکرات کا عندیہ دیا گیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ انکی اس پیشکش کا مقصد وقت گزارنا ہے یا وہ کوئی نئی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں اس سلسلے میں صورتحال جلد واضح ہوجائیگی۔ طالبان  پر اب زیادہ یقین نہیں رہا، وہ ایک طرف مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کا فیصلہ وزیراعظم یا اعلیٰ قیادت کریگی۔ وزیراعظم جو بھی حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائیگا۔ ملکی سلامتی پر سیاست سے گریز کیا جائے۔ قومی سلامتی پالیسی میں تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ عوام کے تحفظ کے لئے انٹیلی جنس اداروں کو مضبوط بنایا جائیگا۔ ریپڈ رسپانس فورس قائم کی جائے گی۔ دہشت گردوں کی شناخت کیلئے خصوصی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ طالبان سے بات چیت یا آپریشن کا فیصلہ وزیراعظم اور اعلیٰ قیادت نے کرنا ہے۔ طالبان پر اب زیادہ یقین نہیں رہا۔ ایک طرف وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں دوسری طرف بے گناہوں کو مارتے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کو 7 رکنی مذاکراتی ٹیم کی دستاویز بھجوائی جو میرے پاس موجود ہیں۔ اتفاق رائے کے بغیر نہ تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں نہ ہی آپریشن۔ 2008ء سے 2011ء تک جتنی دہشت گردی ہوئی، آج اس سے کہیں کم ہے۔ وزیراعظم ایوان کا احترام کرتے ہیں، تحریک طالبان سے براہ راست رابطہ ہوا ہے۔ حکیم اللہ محسود کا ہمارے نام خط موجود ہے، طالبان کے کئی گروپس نے کہا کہ حکیم اللہ محسود سے بات نہ کی جائے۔ حکیم اللہ محسود پر حملہ کرکے مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا۔ جان کیری نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ کے وزیر داخلہ درست نہیں کہہ رہے، میں آج بھی کہتا ہوں ڈرون حملے سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔ چودھری نثار علی خان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور کراچی آپریشن کے بارے میں اہم انکشافات کئے۔ طالبان کے کئی گروپوں سے رابطہ ہوگیا تھا اور حکیم اللہ محسود نے بھی سات رکنی حکومتی ٹیم سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے خود اس حوالے سے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے تھے۔ حکیم اللہ محسود مذاکرات کیلئے رابطوں سے قبل اپنی گاڑی اور گھر استعمال نہیں کرتا تھا اور اعتماد کی فضا بحال ہونے کے بعد اس نے گھر آنا شروع کیا تھا جہاں وہ ڈرون حملے کا نشانہ بنا۔ طالبان کی طرف سے ایک بار پھر مذاکرات کا پیغام ملا ہے جس پر غور ہونا چاہئے۔ عمران خان اور منور حسن ملاقاتوں اور اجلاسوں میں اطمینان کا اظہار کرتے ہیں لیکن باہر آکر میڈیا پر کچھ اور بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے چودھری نثار نے کہا کہ فضل اللہ طالبان سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ جنگ یا امن کا فیصلہ اتفاق رائے سے ہو سکتا ہے۔ فضل اللہ کمپنی مذاکرات نہیں چاہتی تو پھر دوسرا آپشن بتائے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات یا آپریشن کا فیصلہ اپوزیشن کے اتفاق رائے سے مشروط ہے،حتمی حکمت عملی اور صورتحال پر وزیراعظم پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے، طالبان کی جانب سے مذاکرات سے انکار پر دوسرا آپشن سامنے لایا گیا جس سے بات چیت کرنی ہے وہ افغان صوبے کنڑ میں بیٹھا ہے، جب دوسرا فریق راضی نہ ہو تو مذاکرات کیسے کئے جاسکتے ہیں۔ بنوں حملے سے قبل ملا فضل اللہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور منور حسن سے بھی رابطے کئے گئے تھے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ بھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کیا گیا تھا، آئندہ بھی ہر پیشرفت پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائیگا، مذاکرات ہوں یا آپریشن اتفاق رائے کے بغیر کچھ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ 2008ء سے 2011ء تک دہشت گردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں آج دہشت گردی ان سے کہیں کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیلئے براہ راست رابطہ ہوا تھا اس حوالے سے ہمارے پاس حکیم اللہ محسود کا خط بھی موجود ہے۔ طالبان کے کئی گروپس نے کہا تھا کہ حکیم اللہ محسود سے بات نہ کی جائے لیکن حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کی روشنی میں مذاکرات کا عمل جاری رکھا اور بنوں ایئر رپورٹ کے مقام کو مذاکرات کیلئے منتخب بھی کرلیا گیا تھا لیکن شمالی وزیرستان ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوگیا۔ میں آج بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ امریکی ڈرون حملے نے مذاکرات کو سبوتاژ کیا ہے۔ میں نے اس وقت بھی برملا اس کا اظہار کیا تھا جس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ کے وزیر داخلہ غلط کہتے ہیں۔ مذاکرات کا فیصلہ آسان نہیں، یہ پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ حکومت نے بنوں بم دھماکے سے قبل ملا فضل اللہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر بنوں بم دھماکہ ہوگیا۔ حکومت نے ملا فضل اللہ سے رابطہ نہ ہونے اور طالبان کی جانب سے مذاکرات سے انکار کے بعد دوسرا آپشن اختیار کیا، عمران خان، مولانافضل الرحمن اور منور حسن سے بھی رابطے کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی مذاکرات کے حامی ہیں لیکن جب دوسرا فریق راضی نہ ہو تو مذاکرات کیسے کیے جاسکتے ہیں، جس سے بات چیت کرنی ہے وہ افغان صوبے کنڑ میں بیٹھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف آپریشن یا مذاکرات کے حوالے سے حزب اختلاف میں اتفاق رائے کا فقدان نظر آرہا ہے ہم اپنا فیصلہ اپوزیشن کے اتفاق رائے سے مشروط کرتے ہیں، حتمی حکمت عملی کے حوالے سے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا جائیگا اور وزیراعظم صورتحال پر ایوان کو اعتماد میں لینگے۔ ہم آج بھی مذاکرات کے حامی ہیں۔ دوسرا فریق راضی نہ ہو تو مذاکرات کیسے کئے جا سکتے ہیں۔ حزب اختلاف میں اتفاق رائے کا فقدان نظر آ رہا ہے، اپنا فیصلہ اپوزیشن کے اتفاق رائے سے مشروط کرتا ہوں جس سے مذاکرات کرنے ہیں وہ کنڑ میں بیٹھا ہے۔ فضل اللہ اینڈ کمپنی نے مذاکرات سے انکار کر دیا تو دوسرا آپشن سامنے لائے ہیں۔ طالبان کے اکثر گروہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ عسکری قیادت اور پارلیمانی پارٹی سے مشاورت ہو چکی ہے۔ آئندہ چند روز میں انٹیلی جنس اداروں اور قومی قیادت سے پھر مشاورت ہو گی۔ طالبان کہتے ہیں کہ آپ مذاکرات کیلئے شمالی وزیرستان آئیں طالبان اگر مخلص ہیں تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے لیکن مشاورت کے ساتھ۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے وزیر داخلہ چودھری نثار کا بیان مسترد کر دیا۔ وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں کہا تھا سندھ حکومت کراچی آپریشن پر سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے وزیر داخلہ کے بیان پر کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ چودھری نثار نے اب تک کراچی کا صرف ایک دورہ کیا۔

ای پیپر-دی نیشن