150 سالہ تاریخی روایات گورنمنٹ کالج کی ہیں
150 سالہ تاریخی روایات گورنمنٹ کالج کی ہیں
رانا مشہود نے گورنمنٹ کالج لاہور (یونیورسٹی) کی 150 سالہ سالگرہ کا افتتاح کیا۔ یہ گورنمنٹ کالج مرحوم کی 150 سالہ سالگرہ کی تقریب تھی۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو بنے ابھی چند سال ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے اچھا کیا کہ نہ آئے اور ایک ایسے آدمی کو بھیجا جو اولڈ راوین بھی نہیں ہے۔ رانا مشہود وزیر تعلیم ہیں۔ وزیر تعلیم کے لئے تعلیم بالغاں نام کے ایک ڈرامے میں کہا گیا کہ جو شخص زیر تعلیم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ (و) ووٹ والی لگتی ہے تو وہ وزیر تعلیم ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر یعنی برائے نام پڑھا لکھا آدمی بھی وزیر تعلیم بنتا ہے تو اچھا خاصا زیر تعلیم ہو جاتا ہے۔ اور نظام تعلیم کو زیر و زبر کر دیتا ہے۔
اس سے بہتر تھا کہ شہباز شریف حمزہ شہباز کو بھیج دیتے۔ یہ تو پتہ چلتا کہ یہ افتتاح شہباز شریف نے کرنا تھا۔ مشہود سر جھکائے حمزہ صاحب کے پیچھے پیچھے چلے آتے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی اس مصنوعی تقریب کی روداد ملاحظہ کریں کہ اس کا آغاز کیسے ہوا۔ پھر اس کے بعد لمبی لمبی فضول تقریریں کی گئیں اس کا احوال واصف ناگی کی تحریر میں پڑھ لیں جنہوں نے ایک نوحہ لکھا ہے۔ ’’اولڈ راوین یونین‘‘ کے بڑے عہدیدار نے جذبات سے عاری تقریر کی۔ نجانے اُسے کیوں اولڈ راوینز نے منتخب کیا تھا۔ اس موقعے پر اہم اولڈ راوینز کو بلایا جاتا جو نوجوانوں کو جوش و جذبہ عطا کرتے اور اپنے زمانے کی خوبصورت یادوں کا دروازہ کھولتے۔ یہاں نان راوینز کی تعداد زیادہ تھی۔ جینوئن اولڈ راوینز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ گورنمنٹ کالج کے کسی اہم آدمی کو یاد بھی نہ کیا گیا۔ میں نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بنتے ہی گورنمنٹ کالج ختم ہو گیا تھا۔ کب تک گورنمنٹ کالج کی شاندار تاریخ سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ یہ تقریب ایک زیادتی تھی۔ اس کا جواب وائس چانسلر ڈاکٹر خلیق الرحمن کو دینا ہو گا۔ وہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں ساری عمر رہے۔ محنتی استاد ہیں۔ نان راوین ہیں مگر جی سی یونیورسٹی کا جی سی لاہور سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر خلیق پہلے وائس چانسلر سے بہت بہتر ہیں۔ انہیں جی سی کے پرنسپل ہونے کے مقام کا بھی پتہ نہیں تھا۔ وی سی بننے کے لئے انہوں نے ہم سے گورنمنٹ کالج چھین لیا۔ اس کے ساتھ پروفیسر خالد بٹ کو بھی تعلیمی عدالت کے کٹہرے میں آنا ہو گا۔
ایک بڑے نامور اولڈ راوین ظفر اقبال بھی کہیں نظر نہ آئے۔ یہ بات واصف ناگی نے بھی لکھی ہے کہ اس تقریب کا افتتاح کسی بہت بزرگ بہت بڑے اولڈ راوین سے کرایا گیا ہوتا۔ مگر وائس چانسلر نے اپنے ہونے کے جواز کے لئے کسی اولڈ راوین کو نہ بلایا بلکہ کسی اولڈ کو بھی نہ بلایا۔
رانا مشہود نے وزیر تعلیم بنتے ہی نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں برادرم شاہد رشید اور میرے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو بدلوں گا۔ ایک نصاب ایک نظام کو رواج دوں گا۔ انگریزی کے لئے بھی نئی پالیسی لانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ انگریزی کی اہمیت کے لئے ہم قائل ہیں۔ یہ ایک عالمی زبان ہے۔ جو انگریزی پڑھنا چاہے اُسے پورا موقع ملے مگر دوسروں کے لئے انگریزی کو مسلط نہ کیا جائے۔ رانا مشہود یہ طعنہ برداشت نہ کر پائے کہ رانا صاحب کو انگریزی نہیں آتی جبکہ انگریزی واقعی اُنہیں نہیں آتی۔ تعلیمی انقلاب کی ’’آرزو‘‘ رانا صاحب کے دل میں انگڑائی لے کے رہ گئی۔ تعلیمی مافیا کے مقابلے میں کوئی حکمران نہیں ٹھہر سکا تو کسی وزیر شذیر کی کیا حیثیت ہے۔ اب تو تعلیم ایک کاروبار ہے۔ اب یہ زیادہ بڑا مافیا ہے۔ رانا مشہود نے گورنمنٹ گرلز کالج چونا منڈی میں تفریحی کاروباری میلہ لگانے کا سوچا مگر شہباز شریف نے روک دیا۔ اور وہ فی الحال رک گئے ہیں۔ ابھی خطرہ تو ہے۔
نوجوان شاعر حسن اعزاز کے لئے ایک تقریب میں مجھے استاد محترم پروفیسر صابر لودھی ملے۔ وہ بیزار اور نالاں تھے کہ تمہیں بھی 150 سالہ تقریب میں نہیں بلایا گیا۔ تم ’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ گورنمنٹ کالج کے لئے بڑا کام کیا۔ میں نے کہا کہ یہ گورنمنٹ کالج میں آپ جیسے استادوں کا فیض تھا۔ آپ بھی گورنمنٹ کالج کے صد سالہ جشن میں آفس سیکرٹری تھے۔ اب ہر ایسے منصب پر خالد بٹ کا قبضہ ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اولڈ راوین ہے مگر آپ دل چھوٹا نہ کریں کہ اب جی سی یونیورسٹی کے ماتھے پر گورنمنٹ کالج کا نشان زیادہ دیر نہیں رہے گا۔ ہم اولڈ راوین مل کر گورنمنٹ کالج کا 150 سالہ جشن منائیں گے جس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے کسی آدمی کو نہیں بلایا جائے گا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کو زندہ رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے الگ کیا جائے۔
میری تجویز ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا نام تبدیل کیا جائے۔ اُسے کسی اور عمارت میں شفٹ کیا جائے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کو بحال کیا جائے۔ اسے ڈگری ایوارڈنگ ادارہ بنایا جائے۔ اگر انگلستان میں ’’لندن سکول آف اکنامکس‘‘ ڈگری ایوارڈنگ ادارہ ہے تو گورنمنٹ کالج کیوں نہیں ہے۔ ہم بے معنی قسم کے کمپلیکس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تاریخ تہذیب اور تقدیر کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ اس معاملے کو وزارت تعلیم کے حوالے نہیں کر دینا چاہئے۔ حکومت پنجاب خود دلچسپی لے۔ شہباز شریف اولڈ راوین ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی انہیں بھی ڈگری دینے کی کوشش کرے گی۔ انہیں اگر گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف سے ڈگری ملے تو یہ بہت بہتر ہو گا۔ سنا ہے خورشید شاہ اور قائم علی شاہ کو بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں مل رہی ہیں۔ رحمان ملک کو ڈگری ملنے پر پیپلز پارٹی والوں کو خیال نہ آیا تھا۔ مگر نوازشریف کے بعد اب یہ سلسلہ بھی چل نکلے گا۔ حکمرانوں کے لئے کوئی میرٹ نہیں ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کے بعد کسی صحافی کو ابھی تک یہ ڈگری نہیں ملی۔ تو فرق صاف ظاہر ہے۔ مجید نظامی بھی اولڈ راوین ہیں اور وہ بھی 150 سالہ تقریب میں نظر نہیں آئے تھے۔ ایس ایم ظفر بھی نہ تھے۔ ہم پر اب فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ کالج لاہور کی 150 سالہ سالگرہ کے لئے جینوئن جشن کا اہتمام کریں ہمارے خیال میں جی سی یونیورسٹی کے لوگ اولڈ راوین کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ ہم گورنمنٹ کالج لاہور کی 150 سالہ سالگرہ کے لئے جینوئن جشن کا اہتمام کریں۔ اس کے لئے نامور اولڈ راوینز تعاون کریں گے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اولڈ راوینز کی بہار لگی ہوئی ہے۔ سیاست، صحافت، علم و ادب، بیورو کریسی اور کھیل وغیرہ میں ہر کہیں اولڈ راوینز کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اور وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے لوگ ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی بہت پیچھے ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی روایات کو کسی دوسرے تعلیمی ادارے کی حکایات نہیں بنایا جا سکتا۔ پطرس بخاری نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کالج ایک ہی ہے اور وہ گورنمنٹ کالج لاہور ہے۔ تو پھر یہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کیا ہے؟