• news

یک زبان ہو کر بولے تو طالبان ہم سب کو نہیں مار سکتے: بلاول

لندن (نیٹ نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک کے کچھ سیاستدان خوفزدہ اور بزدل ہیں اور وہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے معاملے پر جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں۔وہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اظہار خیال کر رہے تھے۔ انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں میں سے کچھ ’سٹاک ہوم سنڈروم‘ کا شکار ہیں اور وہ طالبان کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے کے لئے خود کو تیار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم ناکام ہو رہے ہیں۔ سوات کی ملالہ ہو یا ہنگو کا اعتزاز یا شہباز بھٹی یا گورنر سلمان تاثیر یا میری والدہ، ہماری بہادر آوازیں ایک ایک کر کے خاموش کی جا رہی ہیں۔ اگر ہم یک زبان ہو کر بولیں گے تو وہ ہم سب کو تو نہیں مار سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مذاکرات کی نہیں بلکہ غیرمشروط مذاکرات کی بات کی جو کمزوری کی نشانی ہے۔‘ ’ہم نے تحفظات کے باوجود طالبان سے بات چیت کے معاملے پر ان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ چھ ماہ میں مذاکرات کی باتیں تو بہت ہوئیں لیکن عملی اقدام کوئی نہیں اٹھایا گیا۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ اگر حکومت اب مذاکرات کی بات کرتی ہے تو وہ غیرمشروط نہیں ہو سکتے۔‘  بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’میں صرف طالبان کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط طے کرنے کے لئے مذاکرات پر تیار ہوں۔‘ شرائط یہ ہوں کہ ’جنگ بندی کی جائے اور طالبان ہتھیار پھینک دیں، وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہ بات چیت کامیاب نہیں ہوتی۔ ہم ماضی میں تجربہ کر چکے ہیں۔‘ وزیرستان میں فوجی کارروائی کے امکان پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ ہم پاکستان سے طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ’میرے خیال میں ہم نے بہت مذاکرات کی بات کر کے دیکھ لی۔ مذاکرات ہمیشہ ہماری پالیسی کا حصہ رہے ہیں لیکن ہمیں ایک طاقتور کی حیثیت سے بات کرنی ہوگی۔ یہ حیثیت ہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں انہیں جنگ میں ہرانا ہوگا۔ وہ ہم سے لڑائی کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے خلاف کارروائی کے لئے اس وقت ملک میں اتفاقِ رائے موجود نہیں اور اسے دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ’ہم نے جو قومی اتفاقِ رائے قائم کیا تھا وہ ایسے سیاستدانوں کی حماقتوں سے ضائع کر دیا گیا جو کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے۔ یہ سیاستدان جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ ڈرے ہوئے ہیں اور بزدل ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’میں نے سوچا تھا کہ میری والدہ کا قتل اس ملک کو جگا دے گا اور کچھ دیر کے لئے ایسا ہوا بھی لیکن پھر دائیں بازو کی قوتوں کی پانی گدلا کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر میری والدہ کا قتل آپ کو نہیں جگا سکا، اگر ملالہ آپ کو نہیں جگا سکی، اگر بلوچستان میں ہزاروں شیعوں کا قتل آپ کو نہیں جگا سکا، اگر مرنے والے پاکستانی، شہید ہونے والے پاکستانی آپ کو نہیں جگا سکے تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ پاکستان کے سیاستدان بزدل ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ ناخواندہ، بھوک کا شکار افراد سے ہے کیونکہ مضطرب افراد کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، چنانچہ وہ دہشت گردوں کے لئے نرسری ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کا طویل المدتی حل ضروری ہے لیکن اس وقت پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ داخلی دہشت گردی سے ہے۔‘ بلاول نے کہا کہ ان کا مقصد پاکستان کا وزیراعظم بننا نہیں، ’میرا مشن اس نظریے کو کامیاب بنانا ہے کہ تمام امن اور ترقی پسند قوتیں متحد ہو کر کام کریں لیکن سب سے اونچی پوزیشن پر میری نظر نہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ میری توجہ 2018ء کے انتخابات پر ہے اور میں نہیں چاہتا کہ مجھے اونچے درجے کی سیاست میں ضمنی انتخابات میں ’پیراشوٹ‘ کیا جائے۔ ’لیکن ہاں اس موضوع پر اس وقت جماعت میں بحث ہو رہی ہے۔‘ بلاول نے کہا کہ یہ بات اب غیر متعلقہ ہے کہ پاکستان ان کے سیاست کرنے کے لئے محفوظ ہے یا نہیں: ’حقیقت یہ ہے کہ ہمیں مقابلہ کرنا ہے اور کم از کم ان کے خلاف آواز تو اٹھانی ہے۔ میری جان کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ میں اس وقت واحد سیاستدان ہوں جو علی الاعلان تحریکِ طالبان پر نام لے کر تنقید کر رہا ہے اور باقی سیاستدانوں کے پاس وہ کچھ نہ کہنے کے لئے کوئی بہانہ باقی نہیں رہا جو میں کہہ رہا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’پاکستانیوں کے سامنے سوال رکھا گیا ہے کہ کیا ہمیں ایک قوم کے طور پر باندھے ہوئے ہے؟ اور ان سوالوں کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں۔ سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا جواب ہو گا مذہب اسلام۔ لیکن تاریخ نے یہ بات غلط ثابت کی ہے۔ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے اس کا بھی مذہب اسلام تھا لیکن مذہب مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک نہ رکھ سکا۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اس کا جواب دیں گے کہ فوج لیکن تاریخ دیکھیں تو یہ بھی غلط ثابت ہوا کیونکہ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ہی میں فوج تھی لیکن وہ ان دو حصوں کو متحد نہ رکھ سکی۔‘ بلاول زرداری  نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں قوم کو معاشرے اور ثقافت کی جنگ کا سامنا ہے جو وہ دائیں اور بائیں بازوؤں کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہار رہی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا کوئی ایسا لمحہ ہوتا ہے جس میں وہ اپنے آپ سے سوال کرتے ہوں کہ اس وقت ان کی والدہ ہوتیں تو کیا کرتیں، بلاول نے کہا کہ ’ہاں میں اسی کے سہارے جیتا ہوں۔ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس وقت میری ماں کیا کرتی۔ مثال کے طور پر میری ماں کی ہلاکت پر غم و غصہ تھا لیکن خوف نہیں تھا جبکہ سلمان تاثیر کی موت کے بعد سب سے حاوی جذبات خوف کے تھے۔ پورا ملک خوف کی وجہ سے خاموش تھا۔ اور یہ ایسا وقت تھا کہ میں نے سوچا کہ اگر میری ماں ہوتی تو وہ کیا کرتی۔ اس لئے میں اس وقت جاری پروپیگنڈے، توہینِ مذہب کے الزامات لگنے کے خطرے کی پروا کئے بغیر اس کے خلاف واضح طور پر کھل کر بولا۔ 

ای پیپر-دی نیشن