• news

اسامہ جیسے لوگ مرتے نہیں دلوں میں زندہ رہتے ہیں: منور حسن‘ ہو سکتا ہے امریکہ نے نوازشریف کو مذاکرات سے روک دیا ہو: سمیع الحق

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن امریکہ کے آخری فوجی کے انخلا تک ممکن نہیں۔ اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ امریکہ خوفزدہ ہے کہیں اسامہ افغانستان میں دوبارہ زندہ نہ ہو جائے۔ جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا طالبان اور پاکستان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں، ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے سے روک دیا ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز افغانستان میں امن و مفاہمت کا عمل کے عنوان سے اسلام آباد میں ہونے والی افغان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، افغانستان کے سابق وزیراعظم انجینئر احمد شاہ احمدزئی، پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد نے بھی خطاب کیا ۔سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا افغانستان کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی جس سے پیچیدہ صورت حال پیدا ہوئی۔ افغانستان کی صورت حال سے کوئی ملک اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا پاکستان متاثر ہوا ہے ۔ ہم نے 65 ہزار لوگوں کی قربانیاں دی ہیں۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔ دونوں ممالک کی قیادت دوطرفہ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے ہم اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے۔  امریکہ اور نیٹو کے افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے مارشل پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے واپس جانے کا ارادہ نظر نہیں آتا امریکہ نے افغانستان میں اپنی بھرپور قوت استعمال کی دنیا بھر کی افواج افغانوں کو شکست نہ دے سکیں۔ پورے خطے کی سیاست اور شواہد کو سمجھے بغیر افغان مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔ ہم شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں ہمارا یہ مطالبہ دراصل فوج کے حق میں ہے کہ نیلسن منڈیلا اور یاسر عرفات کو بھی بڑا دہشت گرد کہا گیا لیکن بعد میں ان کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ لگتا ہے کہ مینڈیٹ زیادہ بھاری ہے اور حکمران ہلکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے اپنے منشور پر عملدرآمد کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ افغانستان کے حالات جنوبی ایشیا، خلیجی ممالک اور مشرق وسطی سمیت خطے کے تمام ممالک کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں رہنے کے لئے آیا ہے جانے کے لئے نہیں۔ صورت حال اتنی آسان نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے امریکہ افغانستان سے 2014ء میں نکل رہا ہے غلط ہے بلکہ وہ 2014ء میں نکلنے کا آغاز کر رہا ہے۔ ہم سب کو سوچنا ہو گا۔ ہم افغانستان کی صورت حال سے لاتعلق نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حالات میں جذبات کے بجائے عقل سے فیصلے کرنا ہوںگے۔ افغانستان کے سابق وزیراعظم انجینئر احمد شاہ احمدزئی نے کہاکہ مسلمانوں کے درمیان اتفاق ویکجہتی کی ضرورت ہے۔ ہم افغانستان میں بین لااقوامی افواج کے اڈوں کے خلاف ہیں جب تک افغانستان میں غیرملکی افواج رہیں گی وہاں امن قائم نہیں ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہاکہ علم نہیں حکومت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں حکومت قوم کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔ ہمارے وعدوں اور منشور پر عمل درآمد کیلئے افغانستان میں امن ضروری ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام تک پاکستان میں سکون نہیں ہوگا۔ ہم دونوں ممالک آپس میں جڑے ہوئے ہیں ایک دوسرے سے لاتعلق ہونا بھی چاہیں تو نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم کو جو مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے امن کیلئے کوشش کریںگے اس کیلئے کس حد تک پیشرفت ہوئی، تعطل پیدا ہوا اس پر بحث جاری ہے پارلیمنٹ کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ وزیراعظم پارلیمنٹ میں آکر اس بارے میں اعتماد میں لیں۔ افغان اعلیٰ امن کونسل کے ترجمان مولانا شہزاد شاہد نے کہاکہ امن کی کوششیں بھی دوسری عبادات کی طرح اہم ہیں پاکستان کو افغان مسئلے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہمیں وزیراعظم نوازشریف سے بہت سی توقعات ہیں۔ اگر سعودی عرب، ترکی، پاکستان اور یو اے ای مل کر کوشش کریں تو 80فیصد مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا شدید نقصان ہوگا۔ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ہم فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ طالبان اور پاکستان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے سے روک دیا ہو۔ افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے مل کر امن کا راستہ نکالنا ہو گا، ہم کبھی بھی فوجی آپریشن کی تائید نہیں کریں گے۔ میں نے طالبان سے بات چیت شروع کر دی تھی، 3 جنوری کو طالبان نے کہا کہ وہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ میں نے 3 جنوری کی رات 8 بجے وزیراعظم کو فون کیا لیکن وزیراعظم نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا، جس کے بعد میں نے 15 جنوری کو وزیراعظم نواز شریف کو خط بھی لکھا۔ طالبان سے مذاکرات کا دروازہ بند کرنا اور آپریشن کا آپشن استعمال کرنا پارلیمنٹ اور پوری پاکستانی قوم کی توہین ارو قومی فیصلوں سے انحراف ہے، طالبان نے پوری شوریٰ نے مثبت جواب دیا‘ لیکن امریکی دبائو پر حکومت نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے آپریشن کا راستہ اختیار کیا ہے جوکہ انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے، قبائل میں بے گناہ اور معصوم شہری اس آپریشن کا شکار ہورہے ہیں‘ سینکڑوں افراد کا خون بہہ چکا ہے‘ ہزاروں عورتیں بچے اور بوڑھے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی اندرونی آبادی میں شدید دہشت گردی کا خطرہ درپیش ہے۔  آپریشن کے حامی سیاسی و مذہبی رہنما پاکستان کو امریکہ کی خواہش پر اس خطرناک آگ میں دھکیل رہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے واضح کیا کہ جمعیت علماء اسلام کسی صورت میں فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کرے گی اور اس سلسلے میں جس طرح کی قربانی دینا پڑی دیں گے اور جمعیت کے تمام کارکن اس کے لئے تیار ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن