فائرنگ کیلئے انتظامی، خرم دستگیر کیلئے سیاسی فیصلے
خرم دستگیر کو تجارت کے وزیر مملکت سے ترقی دے کر وزیر تجارت بنایا گیا تو وہ اتنا خوش و خرم ہوا کہ فوراً گوجرانوالہ پہنچا۔ اپنے آبائی شہر میں پہنچنے پر اس کے ساتھی چمچے کڑچھے آپے سے باہر ہو گئے۔ اتنی فائرنگ کی گئی کہ جیسے اس کی شادی ہو۔ وزارت نئی نویلی دلہن سے بھی شاید زیادہ مزیدار ہوتی ہو۔ خرم دستگیر محترم غلام دستگیر خان کے بیٹے ہیں۔ میں محترم غلام دستگیر کا مداح ہوں وہ وکلا تحریک میں وہیل چیئر پر شریک ہوئے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں کئی بار ان سے ملاقات ہوئی ایک بار وہ خرم کو اپنے ساتھ لائے۔ پھر بھی اس نے اپنے والد سے کچھ نہیں سیکھا۔ وزیر ہونے سے اچھا بیٹا ہونا زیادہ بڑا مقام ہے۔ مگر حکومت والے کچھ سیکھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔
خرم دستگیر ابھی ابھی بھارت کے دورے سے بھی واپس آئے ہیں۔ وہ اپنے ہم منصب بھارتی وزیر تجارت کے ساتھ تصویر میں نظر آ رہے تھے۔ جیسے انہیں یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ میں کہاں آ کے بیٹھ گیا ہوں۔ اللہ غلام دستگیر خان کو سلامت رکھے۔ خرم ان کے گھر پیدا ہو گئے اور بس۔ موروثی سیاست زندہ باد۔ یہ صرف بھٹو فیملی یا شریف خاندان پر ہی موقوف نہیں۔ اسمبلیوں میں بیویاں بہنیں بیٹے بیٹیاں بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں ہر طرف رشتہ دار ہی رشتہ دار بھرے نظر آتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیر کا بیٹا وزیر نہ بنے۔ خرم پڑھا لکھا آدمی لگتا ہے۔ نواز شریف کے ایک مداح اور معتقد کے طور پر اپنے آپ کو منوایا پھر وہ دستگیر خان کا بیٹا ہو گیا۔ نواز شریف تو اس قدر نوازنے والے ہیں کہ وہ مشرف کے چہیتے امیر مقام کے بیٹے کو بھی اگلی دفعہ مشیر بنا دیں گے۔ وہ بھی الیکشن میں ہار گیا تو یہ بھی اس کی کوالی فکیشن بن جائے گی۔ ن لیگ کے ٹکٹ پر ہارنا وفاداری سمجھی جاتی ہے۔
وزیر تجارت کے طور پر خرم دستگیر کسی لحاظ سے زرداری کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم سے مختلف نہیں ہیں۔ خرم مخدوم کے ’’مشن‘‘ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ واہگہ بارڈر بھارتی تاجروں پر کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے لئے یہ سہولت بھی رکھی ہے کہ وہ لاہور سے تھوڑی دور گوجرانوالہ کا چکر ضرور لگائیں۔ یہاں خرم کے ووٹرز انہیں چڑے اور کباب کھلائیں گے۔ ہندو تاجر اگر سبزی خور ہوئے تو سبزیوں کے چڑے چڑیاں بنا کے کھلائے جائیں گے۔
خرم کے مکمل وزیر کے طور پر پہلی بار گوجرانوالہ آنے پر اتنی فائرنگ کی گئی کہ لوگ ہڑبڑا کر گھروں سے نکل آئے۔ کسی نے شہر پر حملہ نہ کر دیا ہو۔ ناجائز اسلحے کی بوریاں کہاں سے آئیں۔ اتنے لائسنس خرم دستگیر کی سفارش سے لوگوں کو نہ ملے ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ہر شہر میں اتنا اسلحہ ہے کہ خدانخواستہ خانہ جنگی ہوئی تو کیا ہو گا اور حالات بتاتے ہیں کہ خانہ جنگی ہو گی بلکہ خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ ہم کراچی کے لئے روتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں کم اسلحہ نہیں ہے۔
گوجرانوالہ میں نوائے وقت کے کالم نگار فاروق عالم انصاری نے اس صورتحال پر عجب جملہ لکھا ہے۔ خرم دستگیر نے کیا کارنامہ کیا ہے کہ اسے اکیس ہزار توپوں کی سلامی پیش کی گئی ہے۔ مکمل وزیر بننے کے لئے اس نے کیا معرکہ آرائی کر دی۔ اس نے وزیر مملکت بننے کے لئے بھی کچھ نہیں کیا ہو گا۔ وہ تو اللہ کا شکر ادا کرے کہ وہ غلام دستگیر خان کے گھر پیدا ہو گیا ہے۔
اللہ کا شکر یہ بھی ہے کہ اس وقت شہباز شریف کسی ٹی وی چینل کے سامنے بیٹھے تھے۔ انہوں نے یہ دلخراش منظر بلکہ مناظر دیکھے تو فوری طور پر ایکشن لیا۔ 200 آدمیوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ اب تک 11 بندے گرفتار ہوئے ہیں جن میں دو آدمی خرم دستگیر کی رہائش گاہ یعنی وزیر ہاؤس سے پکڑے گئے ہیں۔ یہ گرفتاریاں اسی پولیس نے کی ہیں جو مکمل وزیر تجارت خرم دستگیر کے مسلح جلوس کے ساتھ ساتھ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔ ان کے سامنے ناجائز اسلحے کی نمائش ہوتی رہی۔ بے تحاشا فائرنگ ہوئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جیسے آتش بازی ہو رہی ہو۔ چند لوگ زخمی ہو گئے۔ ان کی طرف پولیس نے دیکھا بھی نہیں جیسے یہ ان کا اپنا قصور ہو کوئی اگر گولی کے آگے آئے گا تو زخمی بھی ہو گا۔ گولی کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ گولی چلانے والوں نے اپنی آنکھیں اتنی کھولی ہوئی تھیں کہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ وہ صرف خرم دستگیر کی خوشنودی کے خواہاں تھے۔ خرم بہت خوش و خرم تھے کہ یہ نواز شریف کی پذ یرائی ہے۔ ایسا استقبال تو ان کے باپ کا بھی نہیں ہوا ہو گا۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس کے باوجود تڑتڑاہٹ سے ان پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔ وہ کار کے اندر گھس گئے مگر فائرنگ سے مسلسل انجوائے کرتے رہے۔
شہباز شریف نے جو ایکشن لیا ہے۔ اس کا ری ایکشن کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ یہ واقعہ اتنا بڑا ہے کہ اسے سانحہ کہا جا سکتا ہے۔ اگر پہلے کسی ایسے واقعے پر مضبوط ایکشن لے لیا گیا ہوتا۔ مجرموں کو ووٹرز سمجھ کر چھوڑ نہ دیا گیا ہوتا۔ تو آج کا حادثہ بھی نہ ہوتا۔ شہباز شریف نے اس مجرمانہ کارروائی کا نوٹس لے کر اچھا کیا ہے۔ مگر اس ’’اچھے‘‘ کا کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلتا۔
خرم دستگیر کو چاہئے کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں۔ مگر وہ تو اپنے بندوں کو چھڑوانے کے لئے ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرے گا اور بالآخر کامیاب ہو گا۔ وزیر کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف نے خرم دستگیر کی سرزنش بھی نہ کی ہو گی۔ ان کی سرزنش تو غلام دستگیر خاں نے بھی نہ کی ہو گی۔ فائرنگ کرنے والے اصل بندے تو دستگیر خان کے ہوں گے۔ نواز شریف خرم کو وزارت سے الگ کر دیں۔ ورنہ یہ تو کریں کہ اسے دوبارہ وزیر مملکت بنا دیں۔ وہ یہ نہیں کریں گے تو لوگ جو باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بھی ان تک پہنچ جائیں گی کہ چھوٹے بھائی نے کمال کر دیا ہے۔ نواز شریف کے لئے موقع ہے کہ وہ بھی کچھ کمال کر گزریں۔ انتظامی فیصلہ شہباز شریف نے کیا ہے سیاسی فیصلہ نواز شریف کریں۔