ایران پر پابندیوں کا بل ویٹو کر دونگا‘ ڈرون حملے محدود کر دیئے‘ متاثرہ ملکوں میں مخالفت بڑھی تو امریکہ بھی محفوظ نہیں رہے گا : اوبامہ
واشنگٹن (نوائے وقت نیوز+ایجنسیاں) امریکی صدر بارک اوباما نے کانگریس سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال افغانستان میں فوجی مشن پورا ہونے کے ساتھ امریکہ کی طویل جنگ ختم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے محدود کر دیئے ہیں متاثرہ ملکوں میں ڈرون کی مخالفت بڑھی تو امریکہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ بارک اوباما نے سٹیٹ آف دی یونین خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی ذمے داریاں افغان فورسز نے سنبھال لی ہیں، امریکی فوجی اب صرف افغان فورسز کی مدد کررہے ہیں۔ بارک اوباما کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان نے سکیورٹی معاہدے پر دستخط کردیئے تو کچھ امریکی فوجی وہاں رہ سکیں گے جو افغان فورسز کو تربیت دیں گے اور القاعدہ کی باقیات کا خاتمہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال افغانستان میں 12 برس سے جاری فوجی مشن پورا ہونے کے ساتھ امریکہ کی طویل جنگ ختم ہو جائے گی۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت کو شکست دے دی ہے مگر خطرہ اب بھی موجود ہے۔ القاعدہ کی ذیلی تنظیموں اور دیگر شدت پسندوں نے مختلف ملکوں میں جڑیں پکڑ لی ہیں جن کا نیٹ ورک توڑنے کیلئے اتحادیوں کے ساتھ کام جاری رکھنا پڑے گا۔ بارک اوباما نے کہا کہ جب تک ضروری نہ ہو وہ اپنے فوجیوں کو کسی خطرے کی جگہ نہیں بھیجیں گے۔ دوسرے ملکوں میں بڑے پیمانے پر فوج بھیجنے سے امریکہ کی مضبوطی کم ہوتی ہے اور شدت پسندی بڑھتی ہے۔ اپنے اتحادیوں کی صلاحیتیں بڑھا کر امریکہ کو مسلسل حالت جنگ سے نکلنا ہوگا، اسی لیے انہوں نے ڈرون طیاروں کے استعمال کو دانشمندی سے محدود کردیا ہے کیونکہ ان میں پاکستان، افغانستان اور یمن شامل ہیں، ان ممالک میں اگر عوام یہ سمجھتے رہے کہ امریکہ ان کی سرزمین پر نتائج کی پروا کئے بغیر حملے کررہا ہے تو امریکہ بھی زیادہ محفوظ نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری قیادت اور سکیورٹی صرف فوج پر انحصار نہیں کر سکتی ہمیں ڈپلومیسی کو بھی موقع دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو دس سال میں پہلی مرتبہ جوہری ہتھیاروںکی طرف پیشرفت سے روک دیا ہے اور مستقل سمجھوتہ پر بات چیت جاری ہے۔ ایران کے خلاف مزید پابندیوں کا کوئی اور بل میرے پاس بھیجا گیا تو اسے ویٹو کر دوں گا۔ قیدیوں کی منتقلی پر پابندیاں ختم کرنے اور گوانتاناموبے جیل کو بند کریں گے کیونکہ ہم صرف انٹیلی جنس اور فوجی کارروائی کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں آئینی تصورات پر بھی کاربند ہونا اور دنیا کے سامنے مثال بننا ہوگا۔ اوباما نے کہا کہ ہمارے فوجیوں اور شہریوں کی غیر معمولی قربانیوں کے نتیجے میں آج امریکہ زیادہ محفوظ ہو چکا ہے۔ میں جب اقتدار میں آیا تھا تو ایک لاکھ 80 ہزار امریکی فوجی عراق اور افغانستان میں موجود تھے آج عراق سے سارے فوجی واپس آچکے ہیں۔ افغانستان سے بھی 60 ہزار سے زائد فوجی واپس آچکے ہیں اور افغان فوج خود سکیورٹی سنبھال رہی ہے جبکہ ہمارے فوجی صرف تعاون کررہے ہیں۔ افغانستان سے ہمارے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی تاہم ہمارا عزم اپنی جگہ موجودہ ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے ملک کیخلاف حملے نہیں کرنے دیں گے۔ یمن‘ صومالیہ‘ عراق اور مالی میں ہم اپنے اتحادیوں کیساتھ مل کر یہ نیٹ ورک ختم کررہے ہیں۔ شام میں ہم اپوزیشن کی حمایت جاری رکھیں گے۔ مستقبل کے مشن میں کامیابی کیلئے ہمیں اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ ایران کے بارے میں اوباما نے کہا کہ دبائو کیساتھ امریکی سفارتکاری کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام میں پیشرفت روکی گئی ہے جو 10 برسوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ایران نے اپنے افزودہ یورینیم کے ذخائر ختم کرنا شروع کردئیے ہیں اور وہ جدید سینٹری فیوج استعمال نہیں کرے گا۔ اگر جان ایف کینیڈی اور رونالڈ ریگن سوویت یونین سے مذاکرات کرسکتے ہیں تو ایران آج زیادہ مضبوط ہے اور میں ان سے کم طاقتور مخالفین سے بات کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پابندیوں سے بھی خاصی مدد ملی ہے۔ ہمیں قومی سلامتی کیلئے سفارتکاری کو موقع دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتکاری سے شام میں کیمیائی ہتھیار تلف کرنے میں مدد مل رہی ہے اسرائیل اور فلسطین امن عمل کے حوالے سے بھی سفارتکاری اہم ہے ایران نے وعدہ کیا ہے کہ جوہری بم نہیں بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین کے مقابلے میں امریکہ سرمایہ کاروں کے لئے بہترین جگہ ہے۔ بارک اوباما نے کہا کہ انتہائی ضرورت کے بغیر امریکی فوج کو جنگ میں نہیں جھونکیں گے۔ امریکہ کو مستقل بنیادوں پر جنگ سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔ رائٹرز کے مطابق اوباما نے کہا کہ پاکستان یمن اور افغانستان میں سویلین ہلاکتوں پر احتجاج کی وجہ سے ڈرون حملے محدود کئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا بجٹ خسارہ نصف ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امیگریشن اصلاحات لائیں گے۔ انہوں نے ملازمین کی کم سے کم اجرت 7.25 ڈالر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 10.10 ڈالر فی گھنٹہ کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کیا۔