3 نومبر کی ایمرجنسی مشرف نے اپنی صوابدید پر لگائی‘ وکیل کا اعتراف…آپ نے معاملہ ہی کلیئر کر دیا : جسٹس جواد
اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سابق صدر مشرف کی جانب سے31جولائی 2009ء کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران ان کے وکیل شریف الدین پیرزادہ کو (آج) جمعرات کو ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین نومبر کے اقدامات آئین کی خلاف ورزی تھی ٗ ہر ادارے کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنا چاہئے ٗ کوئی ادارہ غیر فعال ہو گا تو عدلیہ اپنا کردار ادا کریگی ٗ شوکت عزیز کی جانب سے خط میں دی گئی ایمرجنسی کی ایڈوائس صدر پر لازم نہیں تھی۔ مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ان کے خیال میں سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ایمرجنسی آرڈر جعلی تھا، سندھ ہائی کورٹ کے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی سے متعلق آبزرویشن کو سپریم کورٹ نے غیر موثر کردیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درست حقائق نہیں بتا رہے عدالت نے ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ غداری کا مقدمہ چلانا یا نہ چلانا سپریم کورٹ کا نہیں حکومت کا اختیار ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وفاق نے جواب دیا تھا کہ تین نومبر کے اقدام کی تحقیقات کر کے شواہد ملے تو کارروائی کی جائے گی، عدالت نے تو فیصلہ میں کچھ لکھا ہی نہیں وفاق کے جواب پر معاملہ نمٹا دیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بھی یہی استدعا تھی اور آپ فیصلہ پر مطمئن بھی تھے جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ ہم نے تو لارجر بنچ کی استدعا کی تھی جو کہ نہیں بنایا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ آئین کا کون سا آرٹیکل آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کی اجازت دیتا ہے؟ جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ آئین آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن یہ اختیار عدالت نے دیا ہے، ابراہیم ستی کے جواب پر جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کی صاف گوئی قابل تحسین ہے جبکہ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے تو معاملہ کلیئر کردیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ آپ تسلیم کررہے ہیں کہ پرویز مشرف کا 12 اکتوبر کا اقدام غیرآئینی تھا، جس کی عدالت اور پارلیمنٹ نے توثیق کی، پرویز مشرف نے سوچا کہ اگر وہ دوبارہ بھی غیرآئینی اقدام کریں گے تو درگزر کردیئے جائیں گے۔ سماعت کے دور ان سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا جنرل پرویز مشرف کو لکھا گیا وہ خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے ایمرجنسی لگانے کی درخواست کی تھی اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے اس خط کے ذریعے آئین پامال کرنیکی درخواست کی تھی، جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ شوکت عزیز نے اپنے خط میں جو ایڈوائس دی تھی، وہ صدر پر لازم نہیں تھی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پوچھا کہ کیا ایمرجنسی کا نفاذ وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیا گیا جس پر پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہاکہ آرمی چیف کو ایڈوائس نہیں ہوسکتی جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ آپ نے آئین کی پامالی کو عادت بنا لیا ہے ، ٹکا اقبال کیس میں غیرآئینی اقدام کی توثیق نہ ہوتی تو کیا 3 نومبر کا اقدام سنگین غداری نہ ہوتا ابراہیم ستی نے کہاکہ سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے سپریم کورٹ کا نام استعمال کیا جا رہا ہے، وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ مقدمہ نہ چلائیں تو توہین عدالت ہو گی، وزیراعظم ٹی وی پر کہہ رہے ہیں کہ سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے سپریم کورٹ کا حکم ہے، ہم نے دلائل دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ کی خواہش سامنے نہ آئے کہ وہ مقدمہ چاہتی ہے، اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وفاق نے اپنا کیس درج کرانا ہے، ملزم نے دفاع کرنا ہے اور عدالت نے فیصلہ دینا ہے، ہر ریاستی ادارے کے اپنے فرائض ہیں، اگر ریاست کا ادارہ کام نہ کرے تو عدالت کا فرض ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام اگرچہ آئین کی خلاف ورزی تھا تاہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہر خلاف ورزی سنگین غداری نہیں ہوتی۔ آرٹیکل47 کے تحت آئین کی خلاف ورزی پر صدر کا مواخذہ صرف پارلیمنٹ کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہاکہ تین نومبر کی ایمرجنسی کا حکم صدر کا نہیں بلکہ آرمی چیف کا ہے اس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ آئین میں ترامیم کے احکامات تو بطور صدر جاری کئے گئے، اٹھارویں ترمیم کے بعد 1999ء اور 2007ء کی آئین شکنی ایک جیسی ہوگئی ہے۔ مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ 31 جولائی کا فیصلہ کرنے والے بنچ میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، جسٹس غلام ربانی اور جسٹس طارق پرویز متعصب جج تھے، شفاف ٹرائل کے لئے مقدمہ ایسی عدالت میں سنا جائے جس کا اپنا کوئی مفاد نہ ہو۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ تعصب کے معاملات ہمیشہ اسی جج کے سامنے ہی اٹھائے جاتے ہیں لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جسٹس گلزار نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کیس میں تعصب کا معاملہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا تھا تاہم آپ نے ایسا نہیں کیا، اگر افتخار چودھری کے سامنے تعصب کا معاملہ اٹھاتے تو وہی اس کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججز کی تربیت میں ہی ان کو غیر جانبداری کے اصول سکھائے جاتے ہیں، کسی بھی جج کے لئے اس کی غیرجانبداری بہت مقدم ہوتی ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ 2013ء میں سپریم کورٹ میں درخواستیں آئیں، جن میں مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی گئی۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر کوئی آبزرویشن نہیں دی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ یہ بحث صرف ایک شخص نے کی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ فیصلہ صرف ایک جج کا تھا۔ ایڈووکیٹ ابراہیم ستی نے کہا کہ پرویز مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی اپنے صوابدیدی اختیار سے تحت لگائی تھی حالانکہ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ان کے سامنے محض سکیورٹی کی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اس وقت عدلیہ کے سوا تمام ادارے آئین کے مطابق چل رہے تھے اور اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ کے جج خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے تھے۔ 1958ء کے بعد جتنے مارشل لا لگے ان کی توثیق ہوتی رہی جس پر عدالت کا جواب تھا آپ کے موکل نے فرض کر لیا تھا کہ ان کے اقدامات کی بھی توثیق ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا۔ مشرف کے وکیل نے کہاکہ تین نومبر 2007ء کے اقدامات کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ کے جس سات رکنی بینچ حکم جاری کیا تھا اس میں جسٹس رانا بھگوان داس شامل تھے۔ انہوں نے تین نومبر کے بجائے پانچ نومبر کو حکم نامے پر دستخط کئے اس پر بینچ میں موجود جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ایسا نہیں ہے میں بھی اس سات رکنی بینچ میں شامل تھا جس نے ایمرجنسی روکنے سے متعلق احکامات دئیے تھے اور میری موجودگی میں ہی رانا بھگوان داس نے حکم نامے پر تین نومبر کو دستخط کئے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے‘ اگر کوئی ادارہ غیر فعال ہوگا تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی‘ ججز پر متعصب ہونے کا الزام تو لگایا جا رہا ہے مگر یہ معاملہ ان ججز کے روبرو نہیں اٹھایا گیا‘ سابق آرمی چیف نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے ایمرجنسی خود لگائی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے ان کو ایمرجنسی لگانے کیلئے کوئی سمری نہیں بھجوائی تھی‘ وہ یہ بھی تسلیم کررہا ہے کہ جو حکم دیا گیا وہ غیرآئینی تھا اب اس کے بعد کیا رہ گیا کہ جس کی سماعت کی جائے‘ ذوالفقار بھٹو کیس میں متعصب ہونے کے اعتراض کو ہائیکورٹ میں اٹھایا گیا تھا مگر مشرف کی درخواست میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ چیف جسٹس کے متعصب ہونے کا کب پتہ چلا تھا‘جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ کوئی جج آئین سے انحراف کرتے ہوئے فیصلہ نہیں دیتا یہ اس کی تربیت کا حصہ ہے کہ وہ متعصب نہیں ہوتا‘ اگر مشرف نے افتخار چودھری کو گالیاں دی ہیں یا چودہ ججز کیساتھ اس کی کوئی مڈھ بیڑ ہوئی ہے تو بتائیں پھر ہم متعصب ہونے کا فیصلہ کردیں گے‘ آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کا کوئی اختیار ہی نہیں تھا‘ مشرف چاہتے یہ ہیں کہ ان کی مرضی کا بنچ ہو اور ان کی مرضی کا فیصلہ ان کو ملے اور مستقبل میں وہ ایک بار پھر آئین کو روند سکیں‘جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ایک دو ججز کے متعصب ہونے کے باوجود بھی چودہ رکنی بنچ کے اجتماعی فیصلے کے باوجود چودہ رکنی لارجر بنچ کے اجتماعی موقف میں کوئی اثر نہیں پڑے گا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ تعصب کا معاملہ اگر ایک جج بھی اس میں ملوث ہو تو اس کا الزام سارے ججز پر نہیں لگایا جاسکتا‘ ہم مشرف کو فوجداری قانون کا ایک فائدہ دے سکتے ہیں جس میں ایک شخص قتل میں یہ کہتا ہے کہ جناب ! میں نے اسلئے قتل کیا کہ اس نے مجھے للکارا تھا اور میں مجبور ہوگیا ‘ اگر ججز نے مشرف کو للکارا تھا تو آپ بتائیں‘ سزائے موت کو عمر قید میں بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کو دئیے ہیں ۔ جبکہ پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ جسٹس (ر) طارق پرویز‘ جسٹس (ر) غلام ربانی پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیاجسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ثبوت نہ ہو کسی کو متعصب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت نے رانا بھگوان داس کی عدم موجودگی کے حوالے سے منیر اے ملک کی کتاب کے اقتباس کو بھی مسترد کردیا۔