خواجہ ریلوے کو مبارکباد اور ’’مبارکباد‘‘
میں تو برادرم خواجہ سعد رفیق کو مبارکباد دینے والا تھا کہ انہوں نے ن لیگ کے بہت بڑے کالم نگاروں کے علاوہ ایک نسبتاً چھوٹے یعنی جونیئر کالم نگار برادرم رئوف طاہر کو اپنے محکمہ ریلوے میں 22 گریڈ کی نوکری یعنی افسری دے دی۔ انہوں نے ریلوے کو نجکاری سے بچانے کے لئے یکایک بلکہ چھکا چھک بیان داغ دیا کہ اسلام آباد سے استنبول تک مال بردار ٹرین چلائی جائے گی۔ آگے چل کر اس کا ذکر ہو گا۔ یہ کام بھی ’’مبارکباد‘‘ کا مستحق ہے۔ رئوف بھی وفادار کالم نگار ہیں مگر طلبگار کالم نگار اتنے نہیں ہیں۔ طلبگار اور کالم نگار پر غور کریں اور پھر کالموں میں تعریف اور خوشامد کے نقش و نگار ملاحظہ کریں۔ سیاست اور صحافت میں کچھ لوگ ہیں جو تعریف اور خوش آمد میں فرق نہیں کرتے۔ سیاست میں خوش آمدید اور خوش آمد میں فرق نہیں کیا جاتا۔
رئوف طاہر بھی خدمت گزار کالم نگار ہیں مگر گزارہ کرنے کے لئے بھی کچھ تو چاہئے۔ خواجہ صاحب نے رئوف طاہر کو سفارت یا وزارت کے برابر کوئی عہدہ نہیں چاہئے اسے تھوڑی سی ٹوہر اور کچھ زیادہ تنخواہ چاہئے۔ تھوڑا سا پروٹوکول تھوڑی سی سکیورٹی؟ اسے پہلے بھی ڈی جی پی آر میں مل گئی تھی۔ اب وہ ریلوے میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بن گیا ہے۔ اسے اور خواجہ سعد رفیق کو مبارک ہو۔ مبارک تو نواز شریف کو ملنا چاہئے۔ وہ سرکاری طور پر نوازنے کے عادی ہیں۔ نوازنے کا تعلق بھی نواز سے ہے۔ نواز شریف۔ انہوں نے آرمی چیف بھی ایک شریف کو لگایا ہے جنرل راحیل شریف۔ مجھے جنرل شریف کے والد کا نام معلوم نہیں ہے۔ ان کا نام بھی محمد شریف ہو گا۔ میاں محمد شریف سے ملنے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ وہ واقعی بہت محنتی اور محترم آدمی تھے۔ نواز شریف کا بار بار اقتدار ان کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے ہی شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنوایا تھا۔ شہباز شریف نواز شریف کو اپنے باپ کی طرح سمجھتے ہیں۔ حمزہ شہباز بھی اپنے لیڈر کے طور پر نواز شریف کا نام لیتا ہے۔ جبکہ وہ اپنے والد کی سیاسی فوٹو سٹیٹ کاپی ہے۔ اپنی شخصیت اور حاکمانہ روئیے میں بھی وہ اپنے والد جیسا ہے۔
میں برادرم رئوف طاہر سے پوچھوں گا کہ وہ بہرحال بظاہر درویش آدمی ہے۔ دنیا داری کو بھی دین داری کی طرح سمجھتا ہے۔ شکر ہے کہ وہ دینداری کو دنیا داری کی طرح کام میں نہیں لاتا۔ کچھ کالم نگار اپنی تحریروں میں یہ کام کرتے ہیں۔ جب ان کی اہلیہ ہماری بہن فوت ہوئیں تو دکھ ہوا کہ وہ سلیقے، سیرت اور وفا حیا والی خاتون تھیں۔ ان کے گھر ڈاکے بھی پڑے اور انہی کو ناکے پر روک لیا گیا۔ رئوف نے صبر کیا۔ یہ بات دل والے اس دوست کے لئے دل میں قدر و منزلت پیدا کرتی ہے۔ میں واقعی اس کی نئی سرکاری ذمہ داری کے لئے خوش ہوا ہوں اور یہ چند سطریں بھی اس کے حق میں لکھ رہا ہوں جبکہ کئی لوگ اسے میرے خلاف لکھوانے کی کوشش کریں گے۔ جنہوں نے کالم نگاری سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے ہوئے ہیں۔
ایک بات رئوف طاہر سے ضرور کروں گا کہ کیا کبھی انہوں نے نواز شریف کے خلاف کوئی بات لکھی ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اپنا محبوب اور محسن حکمران کبھی کوئی غلطی نہیں کر سکتا اور اس کی نشاندہی سچے کالم نگار کا فرض نہیں ہے۔ جو لوگ بہت پہلے پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈر اور اس کی لیڈر کے خلاف لکھتے رہے ہیں تو نواز شریف کو اقتدار ان کی مخالفت کے لئے ملا تھا اب وہ ایسا نہیں کریں گے کہ نواز شریف ’’صدر‘‘ زرداری کو شاندار الوداعیہ دے چکے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی حکومت بچانے کی ڈیل کر لی ہے۔
یہ بات بھی ہمیں خواجہ سعد رفیق کی اچھی لگی تھی کہ میں ریلوے کی نجکاری نہیں ہونے دوں گا۔ یہ بات نواز شریف کے ارادوں کے سامنے کہنے کی جرات کرنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ نجانے اندر کی بات کیا ہے؟ خواجہ صاحب سے گزارش ہے کہ یہ بھی تو ریلوے کی نجکاری ہے کہ اسلام آباد سے استنبول تک مال بردار ٹرین چلائی جائے گی۔ ترکی پر نواز شریف برادران اور خواجہ صاحبان اتنے مہربان کیوں ہیں؟ لاہور سے استنبول تک کیوں نہیں؟ پچھلی بار ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان پاکستان آئے تو لاہور آئے تھے۔ تو کیا لاہور سے استنبول تک میٹرو بس چلانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ یہ میٹرو بس بھی مال بردار ہو گی تو اسے میٹرو ٹرک کہا جائے گا اور اوور ہیڈ برج یعنی بالائی پل بھی لاہور سے استنبول تک بنانا پڑے گا اور اس فضائی راستے پر صرف ایک ہی کمپنی کا ٹرک چلے گا۔ لوگ جانتے ہیں کہ وہ مال کیا ہو گا اور کس کا ہو گا؟
یہ بھی وزیر ریلوے جانتے ہوں گے کہ پاکستان میں اب مال گڈی نہیں چلتی۔ یہ کارنامہ بلور صاحب کا ہے۔ اس کا نقصان فوج کو بھی ہے۔ ان کا سازوسامان بھی منزل مقصود تک لے جانا دشوار ہو گیا ہے۔ یہ منزل مقصود بھی اب حکومت کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مسلسل دوستی کی کوششوں میں مصروف ہے اور یہ کوششیں رنگ لانے والی ہیں۔ اب یہ قومی گیت پرانا ہو گیا ہے
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
بلور صاحب نے نجی محفلوں میں اس ارادے کا اظہار کیا تھا کہ وہ پشاور سے بمبئی اور کلکتہ تک ٹرین چلائے گا۔ وہاں سے ڈھاکہ قریب ہے مگر بھارت وہاں تک ٹرین لے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ بلور صاحب کی یہ خواہش بھی اس خواہش میں دم توڑ گئی کہ وہ پشاور سے کابل تک بھی ٹرین نہ چلا سکے۔ ٹرین تو افغانستان میں چلتی ہی نہیں۔ وہاں ریلوے لائن ہی نہیں۔ پٹھانوں نے انگریزوں کو اپنے وطن میں گھسنے ہی نہ دیا ورنہ وہ ہندوستان کی طرح افغانستان میں بھی ریلوے لائن بچھوا دیتا۔
جو بلور صاحب نہ کر سکے تھے وہ خواجہ صاحب کرکے دکھا دیں گے۔ ترکی میں اگر خواجہ سعد‘ خواجہ حسان اور نواز شریف کا کاروبار ہے تو یہ کاروبار بھارت میں بھی ہو گا۔ وہاں تک بھی پاکستان ریلوے تو جائے گی۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تو پھر چین اور ایران بھی ہمسایہ ہیں ان دونوں ملکوں میں پاکستان ریلوے نہیں جائے گی کہ اس کے لئے اجازت نہیں ہے۔ یہ بھی ہو جائے تو کیا ہو جائے گا۔ شاہراہ ریشم پاکستان اور چین کو ملاتی ہے۔ اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا تو نواز شریف اور ان کے عزیزوں دوستوں کو چین میں بھی اپنا ذاتی کاروبار شروع کر دینا چاہئے۔
خواجہ صاحب سے گزارش ہے کہ پہلے پاکستان میں تو مال گاڑی چلوائو۔ ریلوے لائن کو ٹھیک کروائو۔ ہماری 90 فیصد سے زیادہ ریلوے لائن اور اس کے لئے بنے ہوئے پل بوڑھے اور بیمار ہیں۔ ایک پینڈو بزرگ نے اپنے شیر جوان پوتے سے کہا کہ روٹی کھا کے ریلوے پل سے نہ گزرا کرو خواجہ مخواہ قومی نقصان کرتے ہو۔ مال گاڑیاں جب تھیں تو دو دن لاہور سے کراچی تک لگاتی تھیں۔ اب مسافر گاڑی بھی مال گاڑی بن گئی ہے کہ یہاں آدمی سامان کی طرح بھرے ہوتے ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ والوں نے ریلوے افسروں سے ڈیل کی ہوئی ہے کہ لوگ مجبوراً بسوں پر سفر کریں۔ اس کے باوجود لوگ ریل کو اب بھی ترجیح دیتے ہیں
گڈی کی کوک اب ہوک بن گئی ہے