35 لاپتہ افراد پر حکومتی رپورٹ مسترد‘ اب تک لچک کا مظاہرہ کیا آئندہ ایسا نہیں ہو گا: جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی 35 لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل خیبر پی کے سے دس فروری تک رپورٹ طلب کر لی جبکہ کیس کی سماعت 11فروری تک ملتوی کردی گئی ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اب تک حکومتوں اور اداروں کا خیال رکھتے ہوئے لچک کا مظاہرہ کیا ہے لیکن آئندہ ایسا نہیں ہوگا، مذکورہ مقدمے کی چھبیس سماعتیں ہو گئی ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچے معاملے پر بنائے جانے والے یک رکنی کمیشن سے زیادہ کوئی امید نہیں اسکو بھی دیکھنا ہے کہ وہ صرف نوٹیفیکیشن تک ہے یا کوئی عملی اور مفید اقدامات بھی کرتا ہے لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی یہ حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے یا متعلقہ ادارے لکھ کردے دیں کہ وہ معاملے میں بے بس ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر لاپتہ افراد کے معاملے پر اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے کی معاونت کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے لطیف یوسفزئی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت بھی کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ لاپتہ افراد کو فورسز لے کر گئی ہیں۔اس معاملے پر میں نے چیف سیکرٹری اور چیف ایگزیکٹیو کے پی کے ،سے بات کی ہے اور مثبت اقدام کا کہا ہے، اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے کمیٹی بنا دی ہے جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ حراستی مرکز سے لاپتہ افراد کو کس نے کن کے حوالے کیا اور اس کے مطابق قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوںکی امین ہے، صوبے کے عوام کا تحفظ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ہمیں بتائیں کیا کرنا ہے جس پر ایڈوکیٹ جنرل خیبر پی کے نے کہا کہ میں نے حکومت کو من و عن عمل در آمد کا کہہ دیا ہے کمیشن کی رپورٹ سات روز میں آجائے گی ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا اس پر کہنا تھا کہ ہمارے لیے ایڈوکیٹ جنرل کی ساکھ بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ قانون کی پاسداری کر کے ہم شہریوں پر احسان کر رہے ہیں، پینتیس افراد کے معاملے پر کوئی کوتاہی نہیں ہونے دیں گے جس پر لطیف یوسف زئی نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ کوئی کوتاہی نہیں ہوگی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 26 جنوری 2014 کو بنایا جانے والایک رکنی کمیشن طارق لودھی کی سربراہی میں بنا دیا ہے جو 35 لاپتہ افراد کے اعداد و شمار اکٹھے کرے گا کہ وہ کس حراستی مرکز میں اور کتنے ہیں کمیشن جو رپورٹ وفاق کو دے گا اس پر ایکشن لیا جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے کہا کہ فیڈرل ازم میں صوبے اپنے دائرہ اختیار میںآزاد ہوتے ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئی ہیں ہمیں یاسین شاہ کے بارے میں بتایا جائے دو سال ہوگئے ہیں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لطیف یوسف زائی نے بتا یا کہ خان زادہ کسی حراستی مرکز میں نہیں ہے جبکہ عدالت نے لاپتہ فرد خان زادہ سے متعلق قرار دیا کہ یہ لاپتہ نوعیت کا کیس نہیں لگتا اداروں کی کوتاہی بھی سامنے نہیں آرہی عدالت اس کیس کو بھی گیارہ فروری کو اس کیس کے ساتھ ہی سنے گی۔