سفید بالوں والا دُلہا باریش جرنیل اور نیازی فیملی
برادرم سعیداللہ خان نیازی کے بیٹے فہیم خان نیازی کی شادی میں شرکت اور محترم ذوالفقار خان کھوسہ کی اپنی شادی کی خبر میرے لئے ایک جیسی کیفیت لے کے آئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ سعیداللہ خان کے بیٹے کی شادی میں اُن کے کزن عمران خان نے شرکت نہ کی مگر بڑے کھوسہ صاحب کی شادی میں اُن کے بیٹوں یعنی چھوٹے کھوسہ صاحبان نے خاص طور پر شرکت کی۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنے محترم والد کی شادی پر ناچے بھی ہونگے۔ دوست محمد کھوسہ اور حسام الدین کھوسہ کو نئی نویلی 35 سالہ دلہن فریال نے عمر میں بڑے اپنے بیٹوں کو گاڑیوں کے تحفے دئیے ہیں۔ جاگیرداروں کے پاس کچھ کم گاڑیاں نہیں ہوتیں۔ خان آف قلات کی نواسی نئی ماں کی طرف سے بڑی گاڑیاں ملی ہونگی۔ جن میں بیٹھ کر وہ چھوٹے چھوٹے لگتے ہوں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنے کس بیٹے کی کار میں بیٹھ کر دلہن رانی پیا گھر آئی ہوں گی۔ مبارکباد تو بڑے کھوسہ صاحب کے بیٹوں کو دینا چاہئے اور دلہن صاحبہ فریال کو کہ جب اپنے دادا کی عمر کے محبوب سے کوئی خاتون شادی کرتی ہے تو یہ اس کا کمال ہے۔ ذوالفقار کھوسہ صاحب کو بھی مبارک کہ وہ ڈٹ کر دولہا بنے ہیں اور اپنے سفید بال بھی کالے نہیں کروائے۔ ورنہ انہیں بھی وہی بات کہنا پڑتی جو میں نے ایک دوست کو کہی تھی جنہوں نے سر اور داڑھی کے سفید بال پھر سے کالے کروا لئے۔ میں نے کہا کہ میں تب سے جانتا ہوں جب ان کے بال سفید ہو ا کرتے تھے۔ سفید بالوں کے ساتھ شادی کرنا شادی کرنے سے بھی زیادہ ہمت کی بات ہے۔ ماشاء اللہ بڑے کھوسہ صاحب 80 سال کے تو ہوں گے۔ شاید ایک آدھ سال کم کے ہوں۔ اخبارات میں جو تصویر شائع ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کون دلہن کی ماں ہے اور کون کھوسہ صاحب کی بیٹی ہے۔
برادرم سعیداللہ خان کے بیٹے کی شادی کے ذکر سے مجھے ذوالفقار کھوسہ یاد آ گئے۔ اگر سعیداللہ خان داڑھی رکھ لیں تو وہ بھی سفید داڑھی ہو گی۔ مگر خطرے والی بات نہیں ہے کہ پٹھان دوسری شادی کریں بھی تو وہ کھلے عام نہیں کرتے… بڑے فخر سے تصویریں بھی نہیں چھپواتے۔
یہاں برادرم انعام اللہ خان نے بہت اچھا بھنگڑا ڈالا۔ شاید اس نے بڑے کھوسہ صاحب کی شادی میں بھی بھنگڑا ڈالا ہو کہ وہ ان کے بہت قریب تھا۔ یہاں مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ تھے۔ برادر کالم نگار چودھری اکرم نے اس حوالے سے بہت شاندار کالم لکھا ہے۔ برادرم حنیف عباسی تھے اور برادرم ایاز صادق بھی تھے جن کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ جب قومی اسمبلی میں مجھے عمران خان ’’مسٹرسپیکر سر‘‘ کہتا ہے تو میرے پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ عمران ایاز صادق کے مقابلے میں ہار گیا تھا۔ مجھے ایاز صادق نے کہا کہ ساری دنیا مجھے کہتی تھی کہ ہار جائو گے صرف ایک اجمل نیازی نے لکھا تھا کہ ایاز صادق عمران کے مقابلے میں جیت جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ ن لیگ کے دوست انعام اللہ خان نیازی کو دوبارہ عزت مندی کے ساتھ ن لیگ میں لے کے جائیں۔ اسے سعیداللہ خان نیازی منع کرتے رہے کہ ن لیگ نہ چھوڑو مگر دوسرے بھائی عمران کے بہنوئی حفیظ اللہ خان جاوید ہاشمی کی طرح انعام اللہ خان کو بھی تحریک انصاف میں لے گئے۔ یہ دونوں کے ساتھ بڑی بے انصافی تھی۔ نیک دل حفیظ اللہ اب کالم نگار بھی ہو گیا ہے۔ وہ عمران خان کے کالم نگار کے طور پر صحافت میں آیا مگر اب صرف دانشور کالم نگار ہے۔ عمران خان نے متعلقہ اخبار کے چیف ایڈیٹر سے حفیظ اللہ خان کی شکایت کی مگر انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے کہنے پر اخبار میں آدمی کو رکھ تو لیتے ہیں۔ اُسے نکالتے نہیں ہیں۔
اس موقعے پر جنرل محمود، جنرل خالد مقبول اور جنرل اسد درانی بھی تھے۔ سعیداللہ خان نیازی ایک زمانے میں تحریک انصاف میں تھے۔ وہ عمران کے کزن تھے۔ وہ عمران خان کی طاقت بن کر سامنے آئے۔ حفیظ اللہ نیازی سیاسی اعتبار سے عمران کے مددگار تھے۔ انعام اللہ خان کی وجہ سے بھی عمران کو فائدہ ہوا مگر خود اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جب عمران خان نے میانوالی کی روایات کو خاک میں ملا کے اپنے محسن رشتہ داروں سے وفا نہ کی اور انعام اللہ خان کو ٹکٹ نہ دیا۔ تو دوسروں سے کیا نہیں کرے گا؟ جب اپنی آبائی سیٹ میانوالی سے عمران نے عائلہ ملک کے لئے چھوڑی اُسے ٹکٹ دیا وہ نااہل ہوئی تو اس نے اپنے کزن وحید ملک کو ٹکٹ دلوا دیا اور ہار گیا۔ یعنی عمران خان ہار گیا۔
خوشی کے اظہار کے لئے بھی کالم سیاسی ہو گیا ہے۔ 12؍ اکتوبر کے مارشل لاء کے بعد 15؍ اکتوبر 99ء میں سعیداللہ خان نیازی عمران خان کو آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل محمود کے پاس لے گیا۔ اب عمران خان کس منہ سے جمہوریت کے کپتان بنتے ہیں۔ سرفراز رفیقی روڈ لاہور کینٹ میں آئی ایس آئی کے ایک سیف ہائوس میں ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد عمران کی موجودگی میں جنرل محمود نے سعیداللہ خان سے کہا کہ 2014ء تک عمران خان کے لئے کوئی امکان نہیں ہے۔ عمران ایک غیر مستقل مزاج شخص ہے جس پر مشکل حالات والے پاکستان کے لئے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ابھی پندرہ بیس سال انتظار کرنا ہو گا۔ مگر وہ انتظار نہیں کر سکتا۔ قومی ادارے اسے بھروسے کے قابل نہیں سمجھتے۔ اس کے باوجود عمران خان نے جنرل مشرف کی حمایت کی۔ اور ریفرنڈم میں کامیاب کرایا۔ اس ’’کامیابی‘‘ کے بعد کسی پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام حیرت انگیز ہے۔ حیرت یہ بھی ہے کہ بہاولپور میں جنرل کیانی کے ساتھ جنگی مشقوں کے معائنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے جنرل محمود سے ہاتھ ملایا اور اکٹھے کھانا کھایا۔
عمران خان کو اس تقریب ولیمہ میں دعوت کے بغیر ہی آ جانا چاہئے تھا۔ یہاں جنرل محمود سے بھی اُس کی ملاقات ہو جاتی۔ برادر کالم نگار چودھری اکرم نے بھی لکھا ہے کہ اس تقریب میں عمران کی شرکت خود اس کے لئے مفید ہوتی مگر عمران خاندانی فائدے سے زیادہ اہم سیاسی مفاد کو سمجھتا ہے عالمی سطح کے ممتاز ڈاکٹر اکبر نیازی بھی تھے۔ وہ میرے سگے ماموں ہیں۔ عمران کے والد اکرام اللہ خان نیازی نے اسے کہا تھا کہ تم پر کوئی مشکل وقت آئے تو ڈاکٹر اکبر نیازی کی مشاورت اور مدد لینا۔ اس تقریب میں میانوالی والے چھائے ہوئے تھے۔ سعیداللہ خان نیازی مستحکم مزاج ہیں۔ سعیداللہ نیازی کے خاندان نے ہمیشہ اپوزیشن کی سیاست کی۔ ان کے اور عمران کے چچا امان اللہ خان مسلم لیگ کے سچے کارکن لیڈر تھے۔ یہ وہ بہادر لوگ ہیں کہ مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کو نواب کالاباغ گورنر مغربی پاکستان نے بتایا کہ میں نے مونچھیں میانوالی کے نیازیوں کے لئے رکھی ہوئی ہیں۔