مشرف، قانون اور غداری کا مقدمہ
صبح سے شام غداری کیس کے حوالے سے مشرف کیخلاف مسلم لیگ نون اور انکی حمایت میں آصف علی زرداری صاحب بھی ہلّا شیری دینے پر لگ گئے۔ غداری مقدمہ کیا ہے؟ اس کیلئے اپنی مرضی کا تین ججوں پر مشتمل پینل بنا کر سماعت شروع کر دی جبکہ انصاف کا تقاضا تھا کہ غیر جانب دار ججوں پر مشتمل پینل بنایا جاتا لیکن ایسا تو تب ہوتا جب ذاتی انتقام کا معاملہ نہ ہوتا۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ آئین کی خلاف ورزی تو ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور 12 اکتوبر کو جبکہ مشرف ملک میں بھی موجود نہیں تھے جب ہوئی تھی۔ مجھے پرویز مشرف کا یہ جملہ یاد ہے جو انہوںنے واپس آنے پر کہا تھا کہ ’’مجھے دھکا کس نے دیا ہے‘‘ 12 اکتوبر کو جب نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور آئین کو توڑا گیا تھا اس وقت جن حالات اور مسائل کی وجہ سے ایسا ہوا وہ بھی ایک حقیقت ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ نے اس عمل کو جائز قرار دیا اور جو حق ملٹری گورنمنٹ نے سپریم کورٹ سے نہیں مانگا تھا اور جو خود سپریم کورٹ کے پاس بھی نہیں تھا۔ آئین میں ترمیم کا حق وہ بھی تین سال کیلئے سپریم کورٹ نے انہیں دے دیا جس کے نتیجے میں آئین میں دو سو سے زیادہ آرٹیکل میں تبدیلیاں کی گئیں اور پی سی او کے تحت اعلیٰ عدلیہ کیلئے ایک نیا حلف نامہ بنایا گیا جس پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے بھی حلف لیا وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ملٹری گورنمنٹ کی حمایت کی تھی اور آئین توڑنے کو جائز قرار دیا تھا۔ بعد میں سابق چیف جسٹس کے حوالے سے سینئر ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے چند شواہد کے ساتھ ایک درخواست صدر کو دی جس میں چیف جسٹس پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے تھے۔ یہ سب کچھ ناصرف اخبارات میں چھپتا رہا بلکہ چینلز پر بھی نشر ہوتا رہا ہے۔ صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا اور نیا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ مجیب الرحمن شامی کے رسالے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں سابق چیف جسٹس کے حوالے سے ایک مضمون پڑھا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’’سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے صدر سے پہلے سینئر وکلاء کو اپنے اعتماد میں لیا تھا کہ اگر صدر نے میری بات نہ مانی تو آپ نے وکلا کی تنظیموں کو کیسے منظم کرنا ہے۔‘‘ آرمی چیف کے گھر جو اس وقت ایوان صدر بھی تھا جو کچھ ہوا اس میں کتنی صداقت ہے وہ بھی آپ کے سامنے جلد آ جائے گی مجھے تو اتنا یاد ہے کہ سابق چیف جسٹس نے اپنے پہلے سال کی کارکردگی پر مشتمل ایک رپورٹ کتابی شکل میں باوردی پرویز مشرف کے حضور کس اندا ز میں جھک کر پیش کی تھی۔ وہ تصویر سارے اخبارات میں چھپی تھی۔ صدر نے جب انکی بات نہ مانی تو انہوں نے طے شدہ پروگرام کے مطابق وکلاء کے ذریعے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ سیاسی حالات کی وجہ سے جو آگے ہوا وہ سب کو معلوم ہے یہ تین جج بھی جو غداری مقدمہ کی سماعت کیلئے مقرر کئے گئے ہیں، سابق چیف جسٹس کے زمانے میں ان کا تقرر ہوا۔ تین نومبر کی ایمرجنسی آئین کیمطابق تھی آئین میں باقاعدہ ایک شق موجود ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ صدر اس وقت آرمی چیف بھی تھے۔ ہندوستان میں بھی اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی تھی اور اسکے تحت بہت سے کام انجام دئیے تھے پاکستان میں جس شخص نے ایمرجنسی لگائی تھی اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسے اٹھا لیا تھا کہ یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی کہ اس پر غداری کا سنگین مقدمہ وہ بھی سابق آرمی چیف کے خلاف بنایا جاتا چنانچہ ن لیگ کے پسندیدہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہونے کے باوجود انہوں نے پانچ چھ سال تک خاموشی اختیار کئے رکھی اور کوئی ایسی بات نہ کی جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غداری کا مقدمہ مشرف کے خلاف چلانا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے ن لیگ کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کے تحت نواز شریف کے اس عمل کو سراہا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ ’’چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا‘‘۔
آصف زرداری صاحب پانچ سال صدارت کے مکمل کرکے گھر چلے گئے انکے پورے دور میں نواز شریف صاحب نے مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی نہ صرف کبھی کوشش نہیں کی بلکہ کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔ حتیٰ کہ مشرف کے وطن واپس آنے کے سال سوا سال بعد تک ان کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن جیسے ہی اقتدار اعلیٰ پر وہ قابض ہوئے۔ اکتوبر 1999ء والے میاں نواز شریف بن گے اور ذاتی انتقام لینے پر تل گئے۔ 12 اکتوبر سے گریز کر کے تین نومبر پر ایمرجنسی کو ایشو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ مشرف کے وہ تمام ساتھی جن میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری شامل ہیں وہ محفوظ رہیں حتیٰ کہ فوج کے حاضر سروس لوگوں کو بھی زحمت نہ ہو ان میں سے بیشتر لوگ تو ہمیشہ کی طرح اس وقت میاں نواز شریف کے ساتھ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ فوجی ادارہ خاموش تماشا دیکھ رہا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اتنی بڑی دھاندلی اپنے کسی سابق چیف کے خلاف برداشت کرینگے کہیں گے تو کچھ نہیں لیکن عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرف کا آرمی ہسپتال میں جانا اور وہاں سے مستقل مشرف کے حق میں رپورٹ کا آنا اور پھر عدالت کے حکم پر ایک بڑے سینئر ڈاکٹر کا معائنہ کرانا اور وہاں سے ایک نئی رپورٹ مکمل تفصیل کے ساتھ آنے کا مقصد کیا ہے اگر یہ پیغام لوگ سمجھنا نہیں چاہتے تو آپ انہیں سمجھا بھی نہیں سکتے۔
مجھے جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا یادآتے ہیں 27 سال کی قید و بند ور جدوجہد کے بعد وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کسی بھی گورے کو اس کی جائیداد اور اس کی ملازمت سے برطرف نہ کیا بلکہ قومی مفاد میںا یک بہتر پروگرام مرتب کیا اور کسی کو نقل مکانی کرنے کی ضرورت نہ پڑی اور نہ ہی کابینہ اور دوسرے اداروں میں زیادہ ردوبدل کیا گیا گوروں کے ذریعے آہستہ آہستہ انہوں نے تربیت یافتہ جنوبی افریقہ کے باشندوں کو حکومت میں شامل کیا اور وہ شرمناک پابندیاں ختم کیں جو گوروں نے مقامی آبادی پر قائم کی ہوئی تھیں کسی ایک آدمی کو بھی نقصان نہ پہنچایا۔ہمارے ملک میں سنگین صورتحال کو پیش نظررکھ کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ملکی حالات کو سنوارنے کی کوشش کی جاتی تو انتشار کا یہ عالم نہ ہوتا کہتے ہیں کہ درست فیصلے بروقت نہ کیے جائیں تو تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا فرض کر لیجئے کہ اگر مشرف کوسزا دے بھی جائے تو کیا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وہ بھی ملک کا ہیرو نہیں بن جائے گا اور اس سزا سے ملک اور مظلوم عوام کی کون سی داد رسی ہوسکے گی؟