امن مذاکرات اور پانی کا بحران
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تسلسل کیساتھ دہشت گرد حملے ہوئے جن کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ بنوں اور راولپنڈی کے افسوسناک واقعات کے بعد افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان کے مخصوص علاقوں پر ٹارگٹ آپریشن کیا جس میں طویل عرصے کے بعد فضائیہ کو استعمال کیا گیا۔ طالبان کیلئے یہ ایک پیغام تھا کہ فوج کی نئی قیادت سکیورٹی اداروں پر خو دکش حملے برداشت نہیں کریگی اور جوابی کاروائی کی جائیگی۔ ٹارگٹڈ فوجی آپریشن کے بعد پاکستانی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹیں شائع ہونے لگیں کہ حکومت اور افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان میں بڑے آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں صرف چار اراکین پارلیمنٹ نے طالبان سے مذاکرات کی رائے دی جبکہ باقی تمام اراکین نے فوجی آپریشن پر زور دیا۔ پنجاب حکومت کے ترجمان وزیر رانا ثناء اللہ نے لاہور اور قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے واشنگٹن سے واضح سگنل دئیے کہ دہشت گردوں کیخلاف فوجی آپریشن شروع ہونیوالا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دفاع پاکستان کے لیڈر خوف زدہ ہوکر آپریشن کیخلاف پرجوش بیانات جاری کرنے لگے۔ ان حالات میں وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوکر طالبان سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم کے اس اعلان سے حکومت اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی ششدر رہ گئے کیونکہ یہ فیصلہ تجزیوں اور رپورٹوں کے برعکس تھا۔یہ حقیقت تو واضح ہوچکی کہ وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کا اعلان ہوم ورک کے بغیر عجلت میں کیا۔ وہ کیا محرکات تھے جن کی بنیاد پر وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا یہ راز بھی چند دنوں میں فاش ہوجائیگا۔ آثار بتاتے ہیں کہ وزیراعظم نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت امن مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان چونکہ بار بار مذاکرات کی پیش کش کررہے تھے ۔ان حالات میں فوجی آپریشن سے عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ آپریشن سے پہلے اتمام حجت کے طور پر امن مذاکرات کو موقع دینا حکمت عملی کا تقاضہ تھا۔ طالبان نے مذاکرات کی پیش کش کے باوجود کراچی میں رینجرز ہیڈ کواٹرز پر حملہ کردیا تاکہ انکی پیش کش کو کمزوری تصور نہ کیا جائے اور وہ مضبوط بنیاد پر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ وزیراعظم نے کسی سیاستدان کو مذاکراتی ٹیم میں شامل نہیں کیا جس سے سیاستدانوں کی نا اہلی کا تاثر پھیلا ہے۔ مذاکراتی کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور اور معروف کالم نگار عرفان صدیقی شامل ہیں جن کا تعلق ایک اخباری گروپ سے ہے۔ وزیراعظم نے اس گروپ کے صحافی نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نامزد کردیا تھا۔ ایک صحافتی گروپ پر نوازشات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وزیراعظم مدبرانہ اور دانشمندانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ مذاکراتی ٹیم کے دوسرے رکن نامور اور ممتاز صحافی رحیم اللہ یوسف زئی ہیں جن کے بارے میں طالبان نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کمیٹی کے تیسرے رکن آئی ایس آئی کے سابق آفیسر میجر عامر ہیں جو مڈنائٹ جیکال آپریشن کے سکرپٹ رائٹر کی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ کمیٹی کے چوتھے رکن سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند ہیں جو قومی سلامتی کے امور کے ماہر ہیں۔ مجموعی طور پر اس کمیٹی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بھی مذاکراتی کمیٹی کو حکومت کی سنجیدہ کاوش قراردیا ہے اور اس طرح خرابی بسیار کے بعد امن کے امکانات روشن ہوئے ہیں البتہ بعض حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کمیٹی کے ارکان طالبان کے خالق ہیں لہذا انکے ایجنڈے کو آگے بڑھائینگے۔امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کیلئے لازم ہے کہ حکومت اور طالبان مخصوص مدت کیلئے سیز فائر کا اعلان کریں تاکہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں کیے جاسکیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی اگر طالبان کے نمائندوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ اسکی بڑی کامیابی ہوگی۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم کے فیصلے سے اتفاق کیا ہے۔ میاں نواز شریف کی قیادت کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ سنبھلتے ہیں یا گر جاتے ہیں۔ انکی حکومت کو گرانے کی تیاریاں بھی خفیہ طور پر جاری ہیں۔ امریکی رپورٹوں میں بھی 2014ء میں فوجی بغاوت کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی نے پاکستان کے قومی مسائل کو متاثر کیا ہے۔ آبادی اور پانی پاکستان کے اہم قومی مسائل ہیں مگر حکومت کی ترجیحات میں یہ مسائل شامل ہی نہیں ہیں۔ پانی کے ماہرین کہتے ہیں کہ چند سال کے بعد پانی کی اس قدر قلت ہوگی کہ زمینیں خشک ہوجائیں گی اور غذائی قحط کا خطرہ پیدا ہوجائیگا۔ اراکین قومی اسمبلی نے پانی کے مسئلے پر مباحثہ کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اپوزیشن اور حکومت سے تعلق رکھنے والے اراکین نے انتباہ کیا کہ بھارت دریائوں پر تیز رفتاری کے ساتھ ڈیم تعمیر کررہا ہے۔ پاکستان اپنے حصے کے پانی سے محروم ہوجائیگا اور پانی کی قلت دہشت گردی سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ بن جائے گا۔ جاوید علی شاہ نے تجویز پیش کی کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر نظرثانی کرائی جائے۔ خاتون رکن نعیمہ کشور نے مشورہ دیا کہ پاکستان میں پانی کے ضیاع کو روکا جائے اور اسے محفوظ بنانے کے انتظامات کئے جائیں۔ جمشید دستی نے کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے پر زور دیا۔ آفتاب شیرپائو نے مخالفت کرتے ہوئے کہا پاکستان کی تین صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیخلاف متفقہ قراردادیں منظور کررکھی ہیں۔ یوسف تالپور نے آفتاب شیرپائو کی تائید کی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سیاسی مصلحتوں کے تحت خاموش رہے اور کالا باغ ڈیم کی حمایت میں ایک لفظ نہ بولے۔ کالا باغ ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے حالانکہ یہ منصوبہ چاروں صوبوں کیلئے انتہائی مفید ہے۔
ارسا کے سابق چیئرمین شفقت مسعود نے بتایا کہ پاکستان انڈس واٹر ٹریٹی میں درج اپنے حقوق کا دفاع نہیں کررہا۔ بھارت بڑی عیاری اور چالاکی سے پاکستان کو مغربی دریائوں کے پانی سے محروم کرنے کی سازش کررہا ہے جبکہ پاکستان کے پانی کے مرکزی اور صوبائی ادارے اس ضمن میں افسوسناک بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں اگر یہ بے حسی برقرار رہی تو پاکستان انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق اپنے قانونی حقوق سے بھی محروم ہوجائیگا۔ شفقت مسعود نے انتباہ کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی، بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل حل ہوجائینگے مگر بھارت پاکستان کا جو پانی غصب کرلے گا وہ کبھی واپس نہیں مل سکے گا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت پانی کے ماہرین کی ایک نگران کمیٹی تشکیل دے جو پاکستان کے حقوق کا دفاع کرسکے اور مستقبل میں پانی کے مسئلہ پر ہونیوالی جنگ کو روک سکے۔ پاکستان کے ٹیکنو کریٹس کا قومی فرض ہے کہ وہ آبادی، پانی، تعلیم اور معیشت جیسے قومی مسائل کے بارے میں پریشر گروپ بنائیں اور حکومت کی رہنمائی کریں۔