• news

انصاف کی راہ میں رکاوٹ برداشت نہیں ‘ بلاخوف و رعایت کرتے رہیں گے: چیف جسٹس

لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ اپنا کردار بلاخوف و رعایت ادا کرتی رہے گی۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک اور اس کیلئے کی جانے والی وکلاء اور سول سوسائٹی کی  جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس جدوجہد سے جمہوریت بحال ہوئی اور آئین کی حکمرانی کو یقینی بنایا گیا۔ اسی تحریک نے عدلیہ کو اہم ترین کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ حصول انصاف کیلئے عوام کی امیدوں پر پورا اترنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے سالانہ عشائیے میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا انصاف کی فوری فراہمی عوام کا بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب بار اور بنچ اپنا اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کریں کیونکہ عوام کی داد رسی کیلئے بار اور بنچ لازم و ملزوم ہیں۔ ججز اور وکلاء لیگل سسٹم کے ٹرسٹی اور انصاف کی گاڑی کے دو پہیئے ہیں۔ وکلاء پر اس بات کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے اور سائلین کی داد رسی کیلئے ان کی رہنمائی کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ذریعے انکی مددکریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد وکلاء کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ انصاف کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب بار اور بنچ میں اتفاق پیدا ہو۔ انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں مقدمات کی بڑی تعداد عدالتوں میں زیرالتوا ہے مگر 90 فیصد زیرالتوا مقدمات ماتحت عدلیہ کے ہیں۔ اس کیلئے متعلقہ ہائیکورٹس کی سربراہی میں ضلعی عدالتیں زیرالتوا مقدمات نمٹانے کیلئے بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء کی کوششیں بھی شامل ہوجائیں تو اس منزل کو آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ضلعی عدلیہ میں سائلین کے مسائل حل کرنے اور انکو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ بطور ادارہ خصوصی اقدامات کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا ملک کی خوشحالی اور عوام کے حقوق کی فراہمی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کریں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سپریم کورٹ اس ملک کا اثاثہ اور دوسری عدلیہ کیلئے قابل تقلید ہے۔ عدلیہ مضبوط کردار والے وکلا کا احترام کرتی ہے چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہوں۔ ہم بار کو اپنا حصہ تصور کرتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد ساقی نے کہا بار اور بنچ ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔ وکلاء کو ہڑتال نہیں کرنی چاہئے مگر احتجاج ان کا حق ہے۔تمام ججز ان کیلئے قابل احترام ہیں۔لاہور ہائیکورٹ بار کے سالانہ عشائیے میں سپریم کورٹ کے ججز جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس اعجاز چوہدری، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس آصف سعید کھوسہ، لاہور ہائیکورٹ کے ججز، سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضیٰ، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رمضان چوہدری اور دیگر وکلاء تنظیموں کے عہدیداروں اور وکلاکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا امن کے قیام کیلئے عدلیہ کا کردار کلیدی ہے۔ ہم آئین اور قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اور ملک میں انصاف کی فراہمی‘ آئین اور قانون کی بالا دستی کیلئے بغیر کسی دبائو کے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ہمیں جمہوری روایات کا خیال اور قائداعظمؒ و علامہ اقبالؒ کے سنہری اصولوں کو یاد رکھنا ہو گا۔ پاکستان کی عدلیہ تاریخی دور سے گزر رہی ہے۔ کیسزکی سماعت کیلئے ججز کی تعداد کم ہے مگر انصاف کی فراہمی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا موجودہ عدلیہ آئین اور قانون کے مطابق کام کر رہی ہے اور انصاف کی راہ میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائیگا اور ہم اسی طرح بغیر کسی دبائو کے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا قانون کی تعلیم کا معیار مزید بلند کرنے کی ضرورت ہے اور معاشرے میں شہریوں کے حقوق کی حفاظت میں عدلیہ کا اہم کردار ہے اور آئین میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ انہوں نے کہا امن کے قیام میں بھی عدلیہ کا کردار کلیدی ہے اور اس کے ساتھ ہمیں جمہوری روایات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطاء بندیال نے کہا عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ہمارا مشن ہے۔ انہوں نے کہا اصل میں ہمارے پاس ججز کی کمی ہے اور کسی کو نکال کر مزید مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے اسلئے ہم تمام ججز کو موقع دے رہے ہیں۔ وہ جائیں اور انصاف اور قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ لاہور ہائیکورٹ میں بہت سے ایسے وکلاء ہیں جو انتہائی اچھے ہیں مگر ان کے لہجے میں سختی ہے جس کی وجہ سے ہم ایسے وکلاء کو جج نہیں بنا سکتے۔ مزید برآں ثناء نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے لاہور میں ملتان بار کے وفد سے ملاقات کی اور مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ چیف جسٹس کی لاہور سپریم کورٹ آمد پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔

ای پیپر-دی نیشن